ایک زرداری سب پر بھاری 23دسمبر کو کراچی ایئر پورٹ پر 18ماہ کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد جلوہ افروز ہو رہے ہیں جن کے استقبال کی بھرپور تیاریاں جاری ہیں ،سندھ حکومت کی ساری مشینری اسی کام میں جھونک دی گئی ہے ،پی پی پی اس استقبال کو تاریخی بنانے کے لئے کراچی ایئر پورٹ پر ہی جلسہ کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے جسے کامیاب بنانے کے لئے ہر لیڈر کو ٹاسک دے دیا گیا ہے،سابق صدر آصف زرداری نے16جون2015کو فوج کے حوالے سے ایک انتہائی جذباتی تقریر کے بعد دیار غیر (مگر وہ دیار بھی ان کے اپنے ہیں)جا بسے تھے، میڈیکل چیک اپ کے بعد ڈاکٹرز کی ٹیم نے انہیں سفر سے منع کیا ہے مگروہ اس دوران اپنی صحت کو داؤ پر لگا کر دوبئی سے امریکہ اور لندن کا طویلسفر ضرور کرتے رہے مگر پاکستان آنا گوار نہ کیا،وہ اپنی سیاسی جماعت اور سندھ حکومت کے تمام معاملات اور پاکستانی سیاست میں اہم کردار دوبئی سے( جو شاید پاکستان کا دوسرا دارلحکومت بن چکا ہے )سے ہی ادا کرتے رہے،جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل ہی ان کی وطن واپسی کے اعلان نے عام آدمی کو حیرت زدہ کر دیا حالانکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی انہوں نے آنا تھا اور اسی ٹائمنگ کے لحاظ سے آنا تھا،امسال پاکستان پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کو پانچ روزہ تقریبات پر محیط کرتے ہوئے نواز شریف اور شہباز شریف کے جاتی امراء سے چند کلومیٹر دور بلاول ہاؤس میں منایا گیا۔بلاول بھٹو زرادری نے اپنے والد صاحب کی آمد سے قبل بر سر اقتدار پارٹی کو چار نکاتی ڈیمانڈز دے رکھی ہیں جن کی ڈیڈ لائن 27دسمبر تک ہے جو کہ شہید بے نظیر بھٹو کی برسی کا بھی دن ہے،بلاول بھٹو رادری کے مطالبات میں سب سے حیران کن مطالبہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا استعفیٰ ہے،پاکستان پیپلز پارٹی چوہدری نثار علی خان کے خلاف اتنا کیوں ہے یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔چوہدری نثار علی خان مسلم لیگ (ن) حکومت کے وہ واحد وزیر ہے جن کی بات میں بہت وزن ہوتا ہے،وہ روزانہ کی بنیاد پر درباریوں والا کرادر ادا نہیں کرتے ،ان کی پارٹی کا ایک بہت بڑا گروپ روز اول سے ہی ان کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف عمل ہے،سانحہ کوئٹہ پر ان کی پریس کانفرنس کے ذریعے انہیں مزید متنازعہ بنانے کی کاؤش کامیاب ہوئی ہے ،سیاست ایک ایسا سفاک کھیل ہے جس میں اندازہ ہی نہیں ہونے دیا جاتا کہ ۔کوئی کر کیا رہا ہے ؟اس کے نتائج اس کے لئے کتنے مہیب اور گھنے سائے لے کر ثابت ہوں گے،چوہدری نثار بھی شاید اسی امبر بیل کا شکار دکھائی دے رہے ہیں،یہ بھی ممکن ہے وہ خود ایسے تانوں بانوں کا خود ایک اہم کردار ہوں بہرحال ان کی شخصیت پر بھی عام حلقوں میں شکوک و شبہات کے آثارنظر آنے لگ گئے ہیں۔ظاہری طورپرچوہدری نثار علی خان کے استعفیٰ کے حوالے سے پی پی پی کا مطالبہ کسی بڑی اور گہری سازش کا نتیجہ لگ رہا ہے ،یہ تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)آپس میں یکجان ہیں ،یہ صرف ایک دوسرے کے خلاف کرپشن الزامات پر کاروائی پر ہی بے جان ہوتے ہیں ،کیا آج تک کسی کرپٹ،بدبو کردار،دہشت گردوں کے سہولت کار کو سزا ہوئی ؟ اربوں روپے لگا کر ریفرنس ضرور بنائے جاتے ہیں اور بعد ازاں انہی سے با عزت بری ہونا ایک رواج بن چکا ہے، ،اب ایک بار پھر چوہدری نثار علی خان کو سرے محل ،نیکلس ،سوئس اکاؤنٹس،اسلام آبادکے نیو ائیر پورٹ، پی ایس او ،او آئی بی ،پی آئی اے ،پاکستان سٹیل ملز کی تباہی کے سکینڈلز نظر آنے لگے ہیں مگر عملاً کچھ نہیں۔ انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کی کرپشن کی فائلیں ان کا پاس ہیں ،اب قوم کو بتایا جائے کہ وہ فائلیں کس مقصد کے لئے کسی صندوق میں پڑی ہیں اورموقع ملنے پر محض ان کا ذکر کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے، ایک دوسرے کو طعنہ زنی اور کبھی کبھی الزامات کی بوچھاڑ ،پریس کانفرنسیں اور ٹی وی ٹاک شوز میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا یہ سب مربوط منصوبہ بندی کے تحت کیا جاتا ہے یہ ٹولہ کسی طور نہیں چاہتا کہ کوئی اور طاقت ان کی جگہ لے سکے ،لفاظی کی Commited جنگ اس وقت بام عروج پر ہے ،پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پانامہ لیکس پر انتہائی جاندار احتجاج کو سبوتاژ کرنے میں پیپلز پارٹی سمیت تقریباً سب سیاسی جماعتوں کا کردار شامل ہے،عمران خان تبدیلی لاتے لاتے لگتا ہے خود تبدیل ہوتا جا رہا ہے ،پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری پاکستان کے موجودہ نظام کے یکسر بدلنے کی جستجو میں تھے مگر پی ٹی آئی کو اس کا ہمنوا بنا کر اسی کے خلاف سب سے بڑی رکاوٹ بنا دیا گیا،موجودہ ملکی سیاسی حالات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی دبنگ انٹری کسی کرپشن،کسی عوامی بھلائی یا روٹی کپڑا مکان جیسے نعرے کی وجہ سے نہیں ہے یہ تو ایک طے شدہ طریقہ کار کے تحت ہونے جا رہا ہے ،جنرل مشرف کی رخصتی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے پانچ سال پورے کئے ،آصف علی زرداری کو صدر مملکت بنانے میں میاں برادران کا کلیدی کردار تھا ،جب ان کی تابناک جمہوری حکومت کے آخری سال آئے تو میاں برادران میدان میں کود پڑے ،ان پر وہ وہ الزامات لگائے جن سے لگتا تھا کہ پاکستان کا پیپلز پارٹی سے بڑا دشمن کوئی اور دشمن نہیں ہے مگر الیکشن کے بعد یہ سب کچھ ٹھپ ہو گیاکرپشن کہانیاں عوام کی قبریں کھود کر ان میں دفن کر دی گئیں دراصل یہ میثاق جمہوریت تھی اور اسی میثاق جمہوریت کا ثمر ایک بار پھر پاکستانی قوم کی جھولی میں گرنے والا ہے۔یہ بھی میثاق جمہوریت کا ہی ایک حسن ہے جس کے باعث کہا جاتا ہے ،کرپشن ،لوٹ مار،آمریت وغیرہ جتنی بھی قباحتیں اور خرافات ہیں ان کا بہترین انتقام جمہوریت ہے اور یہ انتقام ان سے نہیں لیا جاتا جن سے لیا جانا چاہئے بلکہ یہ انتقام مزید لوٹ مار،کرپشن،مہنگائی اور وطن کو قرضوں کے بوجھ تلے روند کر لیا جاتا ہے عوام کو خون تک نچوڑ لیا جاتا ہے،جو دو وقت کی روٹی کو ترس جاتے ہیں ،80 فیصد عوام کے چولہے بندہو چکے ہیں ،قرضہ پے قرضہ لیا جا رہا ہے قوم کو کوئی یہ تو بتائے قوم کو گروی رکھ کر لیا جانے والا قرضہ کہاں خرچ ہو رہا ہے عجب تماشہ ہے جب سے بیرونی قرضوں آنے شروع ہوئے ہیں آج تک ان کا آڈت نہیں ہوا ویسے پیٹوں میں جانے والی دولت کا آڈت کرنے بھی کون دیتا ہے ؟خدا جانے یہ جمہوری انتقام کب تک ہم پر مسلط رہے گا؟ہم آمریت کے حامی نہیں ہیں جو ایسا کہہ رہے ہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر اس کھلواڑ پر رونا رو رہے ہیں جو ایک عرصہ سے یہاں جاری ہے یہاں ایسا نظام وضع کر دیا گیاجہاں کسی اور کی گنجائش نہیں اسی نظام کے تحت ایسی جمہوریت رائج ہے جس کے کئی منہ ہیں کئی ہاتھ ہیں کئی ٹانگیں ہیں جو کسی ۔بلا۔کی مانند ہے اور سب کچھ ہضم کر جاتی ہے،پہلے ہم بھی کہتے تھے اس ملک کو جمہوریت راس نہیں آئی اب کہتے ہیں اس ملک کے حکمرانوں نے کبھی جمہوریت کو راس آنے ہی نہیں دیا،ایوان میں یہ سبھی اپنے اپنے مفادات کی بات ضرور کرتے ہیں مگر کبھی انہوں نے عوام کے لئے صحت ،تعلیم ،ترقی ،روز گار کے مواقع،عوام کی خوشحالی کی بات نہیں کی،کیا عوام انہیں اپنا پیٹ بھرنے اورکرپشن کرنے کے لئے منتخب کرتے ہیں؟ اپنالیکشن2013میں پاکستان پیپلز پارٹی نے دہشت گردی کا بہانہ بنا کر مسلم لیگ کو اقتدار میں آنے کا مکمل موقع فراہم کیایہی وجہ بنی کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک نئی سیاسی جماعت پی ٹی آئی ووٹوں کے تناسب سے دوسرے نمبر پر آ گئی،مگر میثاق جمہوریت زدہ سیاستدانوں کا جو مقصد تھا وہ اپنی معراج کو چھو گیا،سابق صدر آصف زرداری نے میاں نواز شریف حکومت سے حلف لینے کے بعد بیانگ دہل کہا تھا ابھی ہم سیاست سے دور رہیں گے کیونکہ سیاست کرنے کا وقت جب آئے گا تب ہر کوئی ہمیں دیکھ لے گا اور یہ وقت اب آن پہنچا ہے،میثاق جمہوریت کے تحت الیکشن 2018کے نزدیک پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اس انداز سے ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو چکی ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کو ہر ممکنہ حد تک بڑھایا جا سکے،پیپلز پارٹی میں دھڑا بندی کا شوشہ بھی محض ٹوپی ڈرامہ ہے ،انہوں نے مل کر پاکستان تحریک انصاف کو ان کے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا،اب ان دو پارٹیوں کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پرایسے ایسے اقدامات اٹھائے جائیں گے جو سیاسی درجہ حرارت کو بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کریں گے،لٹی ،پسی اور خط غربت سے بھی کہیں نیچے شرمناک زندگی بسر کرنے والی بے بس اور مظلوم عوام کو یہ بآور کرایا جائے گا کہ پی ٹی آئی نہیں بلکہ ان کے دکھوں کا مدواو صرف پاکستان پیپلز پارٹی ہی کر سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ پی پی پی ایک دم فرنٹ لائن پر آ گئی ہے ،تاریخ گوا ہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت کو جتنا سہارا مسلم لیگ (ن) نے دیا تھا کسی اور نے نہیں اور پی پی پی کی کرپشن پر الیکشن 2013سے قبل جتنا شور مسلم لیگ (ن) نے ہی مچایا اتنا کسی اور نے نہیں مگر ہوا کیا؟اب وہی سب کچھ پاکستان پیپلز پارٹی کرے گی اور اسے پورا موقع فراہم کیا جائے گا،پانامہ لیکس جیسے میگا کرپشن کیس پر پاکستان تحریک انصاف انتہا تک جا رہی ہے مگر مک مکا کے تحت یہ کریڈٹ پیپلزپارٹی کے خاتے میں جائے گا الیکشن2018تک،پھر اسی کرپشن کی پاسبانی نئے آنے والے کریں گے اسی طریقہ کار میں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی ۔بقا۔۔ہے،سیاست کے ان سپہ سالاروں کو مات دینا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے ،ان کی رسائی بہت دور تک ہے،یہ اشرافیہ سیاست کو مفاہمت کے تحت کرتی ہے چاہے اس مفاہمت میں تمام تر قومی ادارے کسی مہلک بیماری میں مبتلا مریض کی طرح بستر مرگ تک کیوں نہ پہنچ جائیں۔ میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں جو افغانی ہجرت کر کے گئے ہیں انہیں پاکستان واپس لا بسایا جائے۔محمود اچکزئی نے کہا افغان مہاضرین کو واپس لا کر انہیں شہریت دی جائے ۔مولانا شیرانی کے مطابق پاکستان کو پانچ ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا دیکھ رہا ہوں ۔ان کے منہ میں خاک۔آخر میں پاکستان تحریک انصاف کی خدمت میں عرض ہے ک ہوہ اپنی پالیسی مستقل خطوط پر استوار کرے ورنہ اسی طرح وہ عوام کے خوابوں کو چکنا چور کرتی رہے گی حالیہ صورت حال میں میثاق جمہوریت کے یہ شہہ سوار کسی موقع پر انہیں کارنر ضرور رکریں گے۔
The post میثاق جمہوریت کی جلوہ گری ،،،،،،،،،،، ( پہلو ۔۔۔۔۔۔۔۔ صابر مغل) appeared first on JhelumGeo.com.