پاکستان گذشتہ کئی برسوں سے شدید ترین انرجی بحران کی لپیٹ میں ہے ہماری صنعت تباہ ،بے روزگاری کی فراوانی،مہنگائی کا جن بے قابو،اندرونی و بیرونی قرضوں کا انبار اس ملک پر کسی ۔دیو۔کی طرح حاوی ہے،جمہوری دور حکومت کو مسلسل آٹھ سال ہو چکے ہیں ،سابقہ حکومت اس بحران پرقابو نہ پا سکی تو موجودہ حکومت کی بڑھکوں اور دعوؤں نے زمین و آسمان ایک کر دیا، مگر دوسروں پر لعن طعن کرنے والوں میں بہتری نام کی کوئی چیز ۔عوام۔کے لئے خواب بن چکی ہے،بلکہ جو لوٹ مار اور بد تر حالت کا وبال تھا اس میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا اور ہوتا چلا جا رہا ہے، بدحال عوام جس طرح پہلے حکمرانوں کی عذاب سے لبریزحکمرانی پر جھولی اٹھائے ہوئے تھے آج بھی وہ اسی طرح نوحہ کنان ہیں،مگر ان کی شنوائی کہیں نہیں ہو رہی شاید یہاں کوئی ایسا ہے ہی نہیں جو عوام کے حقوق کو پہچان سکے،ان کے گھروں میں خوشحالی کا سماں پیدا کر سکے،ایک طرح سے یہ وہ بد قسمت ریاست ہے جہاں حکمرانوں کے آگے قومی مفاد کی بجائے صرف ۔مصلحتیں ہی مصلحتیں ہیں،مزید یہ کہ ان کو لگام ڈالنے والا بھی کوئی نہیں،یہاں کی جمہوریت میں بھی کئی طبقے ہیں اور یہی طبقے برائی کی اصل جڑ اور اس کی نشوونما میں بنیادی کردار کے حامل ہیں،ان طبقات میں لسانیت،صوبائیت ،علاقائیت اور مسلکی مذہبیت کا عمل دخل کہیں زیادہ ہے،عام سیاسی کردار تو اقتدار کی خاطر بلا تفریق ہر ایک ہو جاتے ہیں،اس سلسلہ میں سب سے زیادہ کردار یا ذمہ داری ان طبقوں پر عائد ہوتی ہے جو سیاست کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتیں بھی ہیں لوگ جنون کی حد تک ان سے لگاؤ رکھتے ہیں بلکہ ان کی آواز پرمر مٹنے تک تیار ہو جاتے ہیں مگر سیاست اور مذہب کا مرکب بنا کر حکومتوں کے لئے مجبوری بن جانے والی ایسی جماعتیں کسی برائی یا لوٹ مار کے آگے ۔پل۔باندھنے کی بجائے ان کے آلہ کار بن جاتی ہیں ،ایسے لیڈران کے صرف چند ماہ کے بیانات اٹھا کے دیکھ لیں ان کے قول و فعل میں کس قدر تضاد ہے اس پر مزید تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی، کبھی یہ حکمرانوں کو لٹیرے اور غاضب کہتے ہیں اور کبھی انہیں مسیحا کا درجہ دے ڈالتے ہیں،لسانیت اور صوبائیت کی لعنت سے شرابور طبقہ سے ہر قسم کی خرافات کی توقعات کی جا سکتی ہیں مگر مذہبی جذبات پر کسی۔برائی۔کا حصہ بننے والوں پر حیرانگی ہوتی ہیں کہ یہ خود کو علماء کی صف میں شامل سمجھنے والے جن کے نا سمجھ پیروکاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے مذہب کے نام پر کس کو دھوکا دے رہے ہیں؟ روز قیامت ریاست پاکستان میں ہونے والی تمام خرافات کا حساب یہی لوگ دیں گے۔لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھی ایک ہی سوچ کے حامل حکمرانوں کے ہوتے ہوئے شاید قیامت تک عوام کی جان نہ چھوڑے،کیونکہ جتنا منافع یا مفاد لوڈ شیڈنگ سے اعلیٰ طبقے کو مل رہا ہے وہ انرجی بحران ٹلنے سے اپنی موت آپ مر جائے گا اسی لئے یہ کبھی ایسا نہیں ہونے دیں گے،اس بحران کے مصنوعی حل کے لئے کئی سرمایہ کار حکومتی مہربانیوں سے کھربوں پتی بن چکے ہیں اور ہر منٹ بعد ان کی دولت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، جب سردیوں میں یہاں اندھیرے چھائے رہتے ہیں تو گرمیوں میں ان کے چھٹنے کی امید کیسے کی جائے؟ یہاں کے عوام عرصہ سے بلکہ طویل عرصہ سے اس ذلت آمیز صورتحال کو بھگت رہے ہیں نہ جانے ان کی کتنی نسلیں اسی طرح ۔شہر خاموشاں۔میں جا بسیں گی مگر بہتری کی کرن نظر نہیں آتی ،صرف دعوے ہیں جو دھول کی طرح اڑتے اور سب کچھ بیمار کرتے چلے جاتے ختم ہو جاتے ہیں،7جون کو ماہ مقدس رمضان المبارک کا آغازہوااس سے قبل بھی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے بری حالت تھی مگر تمام تر حکومتی دعوؤں کے پہلے روزے کے دن ہی عوام کو پتا چل گیا کہ ان کے حکمران کیسے ہیں؟جہاں ایک گھنٹہ بجلی بند ہوتی تھی وہاں اب چار سے پانچ گھنٹے مسلسل بجلی کی بندش معمول بن چکی ہے،سحری،افطاری اور تراویح کے اوقات کا بھی ذرہ خیال نہیں،تیسری دفعہ حکمرانی کے پنگھوڑے میں جھولا جھولنے والوں کو ایسی صورتحال کا ادارک نہیں؟ان کی حکمرانی کے ثمرات کیا یہی ہیں جو ماہ رمضان میں عوام کو میسر آ رہے ہیں؟پہلے تو کبھی بجلی آ جاتی تھی اب تو وہ بھی نہیں ہو رہا،قومی اسمبلی میں لوڈ شیڈنگ کے معاملے پر وزیر بجلی و پانی سیخ پا ہو کر اخلاقیات کو بھی روند ڈالتے ہیں ،بعد میں فرماتے ہیں ایسی بحث پر جذباتی ہونا ان کا فطری عمل تھا۔اس سے پوچھا جائے جو لوگ اس کربناک اور ذلت آمیز عذاب میں مبتلا ہیں وہ اپنے ۔جذبات۔کا اظہار کس کے سامنے کریں؟وہ اپنا فطری رد عمل کہاں ظاہر کریں؟وہ کس کے سامنے روئیں؟کس کے سامنے اپنا دکھڑا بیان کریں؟وہ کہاں سے اپنا حق مانگیں؟وہ کس کے ۔در۔پے جائیں؟کاش وزیر صاحب سمیت تمام حکمرانوں کو،تمام سیاست دانوں کو،تمام سرمایہ داروں کو، تمام جاگیر داروں کو،تمام با اختیاربیوروکریٹس کو عوام کی طرح پوری زندگی میں صرف اور صرف ایک دن گذارنا ۔پڑ ۔جائے تو انہیں لگ پتا جائے گا کہ عذاب کہتے کسے ہیں؟وہ کیا بلا ہے جو ان کی کمال مہربانیوں سے عوام کے گلے پڑی ہوئی ہے؟ جس طرح اس ملک میں مکمل طور پر طبقاتی نظام رائج ہے اسی طرح لوڈ شیڈنگ کو بھی علاقوں کے حساب سے طبقاتی بنا دیا گیا ہے،سات جون سے ایک روز پہلے بھی اسی طرح گرمی کا زور تھا پھر ماہ رمضان کے پہلے دن سے ہی ایسی خبیثانہ حرکات کا کوئی بھی جواز سمجھ سے بالاتر ہے،ایسا کون کر رہا ہے؟ہمارے حکمرانوں کو اس صورتحال کا علم کیوں نہیں ؟اگر علم ہے اور وہ طویل حکمرانی کے باوجو د اس ۔ذلت۔کا حل نہیں نکال سکے تولعنت ہے ایسی پالیسی پر جو وطن عزیز میں تمام تر قدرتی نعمتوں کے باوجود عوام کو خوشحالی کا جھونکا تک نہ دے سکے ،اربوں ڈالر کا پانی ضائع کیا جا رہاہے ،خشک سالی ہمارے سروں پر ہے مگر اس بابت کوئی واضح اور جامع پالیسی نہیں بنا جا سکی سب کچھ سیاست اور اقتدار کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے، لوڈ شیڈنگ کی بحث پر جذبات پر قابو نہ پا سکنے والے وفاقی وزیر نے ہی اس دور حکومت کے پہلے سال سیالکوٹ میں ایک تقریب کے دوران عوام کو آگاہ کیا تھا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ آبی جارحیت کی انتہا کئے ہوئے ہے یہی صورتحال رہی اور ہم پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبوں پر عمل نہ کر سکے تو پاکستان کا حال صومالیہ سے بھی بد تر ہو گا دنیا کی کوئی طاقت ہمیں قحط سے نہیں بچا سکے گی ۔خواجہ آصف جذبات سے نکل کے عوام کو بتائیں کہ انہوں نے، ان کے آقاؤں نے اس گھمبیر صورتحال کا علم ہونے کے باوجود اس سے نبٹنے کے لئے اب تک کیا کیا اقدامات کئے ہیں؟جب حکمرانوں کی جانب سے ہی ملکی اور قومی مفادات کے لئے۔ نا اہلیت کی حد۔کر دی جائے تب بھارت سے کسی نوعیت کی جارحیت کا شکوہ کیوں؟ ساری دنیا کو علم ہے کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے مگر ہماری جمہوری حکومت پھر بھی دوستی کا راگ الاپتی ہے ،صحت کا تعلیم کا دیگر ترقیاتی کاموں کا بجٹ بھی ۔کٹ۔کر کے میٹرو بسوں اور اورنج ٹرینوں جیسے منصوبوں کی نظر کیا جا رہا ہے، نہ جانے یہ کس نوعیت کی ترقی ہے کہ عوام کو روٹی نصیب نہیں ہو رہی اور حکومت مہنگے ترین منصوبوں میں مگن ہے ،کوئی شک نہیں کہ عوام بد ترین لوڈ شیڈنگ کی بھی عادی ہو چکی ہے مگر ماہ رمضان کا بھی کچھ تقاضا ہے مگر کیا کیا جائے یہاں بے حسی اپنی حدوں کو چھو رہی ہے،آگے پیچھے نہیں کم از کم اس پاک تر مہینے کے تقدس کا ہی کچھ خیال کر لیا جاتا مگر شاید شرم نام کی کوئی چیز ایسے کرداروں کے نزدیک بھی نہیں بھٹکی۔۔
The post ماہ رمضان اور بد ترین بجلی بحران ( پہلو ۔۔۔۔۔۔۔ صابر مغل ) appeared first on جہلم جیو.