پانامہ لیکس کی آف شور کمپنیوں کے بارے خبریں آجکل ہمارے معاشرے میں زبان زدِ عام ہیں ، اس کھاتے میں جہاں بیرونِ ممالک سے143 لوگوں کی شمولیت ہے ٹھیک وہاں پر جناب وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کانا م بھی شامل ہے میاں صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ان کو ہر پاکستانی جانتا ہے اور اگر کوئی نہیں بھی جانتا تو ان کے گزشتہ روز ہ قوم سے کردہ بیان کو دیکھ لے یقیناًوہ شخص جان جائے گا کہ میا ں صاحب آخر میاں صاحب کیوں ہیں ،میاں صاحب اور ان کے خاندان نے جتنا سیاست میں نام کمایا اور سے بڑھ کر میاں جی اور ان کے خاندان نے اپنے کاروبار میں پیسہ کمایا،میاں صاحب نے اپنا نام رپورٹ میں لیک ہونے پر اپنے آپ کو احتساب کے بجائے ’’خطاب‘‘ کے لیے پیش کر دیا ،میاں جی نے اپنے خاندان کی محنت کو عوام کے سامنے پیش کیا کہ کس طرح ان کے والد گرامی نے کارخانے لگائے؟؟؟؟؟ ،کہاں کہاں لگائے؟؟؟؟؟ ،کب لگائے؟؟؟؟؟ ان کا پورا خطاب اپنے خاندان اورکاروبار کے گرد گھومتا رہا میاں جی کا پور خطاب اپنے اور اپنے چاہنے والوں کا بچاؤ کرتا نظر آیا،،اس خطاب میں میاں جی کی زبان سے ایک لفظ بھی ایسا نہیں نکلا جو وطن عزیز یعنی پیارے’’پاکستان‘‘ کے لیے ہو ،الیکشن کے دنوں میں دونوں بھائیوں نے دعوؤں کے انبار لگادیئے، اس وقت ان کے خطاب میں صرف اجڑے پاکستان کو سنورانے کی باتیں چلتی تھی، الیکشن ہو ا، مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ، حکومت میں بھی میاں جی اور ان کے خاندان میں کسی کی زبان سے ایسے کوئی الفاظ نہیں نکلے جس میں اپنے کاروبار سے پاکستان کو بچانے کی بات ہوبلکہ میاں جی کے خلاف تمام مقدمات جھوٹ کی بنا پر ختم کر دیے گے، جس کے بعد میٹرو بس ، اورنج ٹرین جیسے منصوبوں پر قومی خزانے کو بہت بے دریغی سے لوٹا گیا، شاہ پرست جماعت نے اپنے فرمارواؤں کوبہادری کے ساتھ نوازنے کا سلسلہ جاری رکھا، لیکن جب ’’نیب‘‘ نے اپنا رخ پنجا ب کی طرف کیا تو جوشیلے میاں جی نے ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہونے پر سیاست کو چھوڑنے کا اعلان کیا جبکہ ایک دھمکی میں یہ بھی کہہ دیا کہ بات کی تونیب کے پسینے چھوٹ جائیں گئے اکثر لوگوں کو میاں جی کے اس روئیے پر شدید غم و غصے کا اظہار کرنے کا موقع ملا لیکن سوائے غصے کے وہ کر بھی کیا سکتے تھے میاں جی کی یہ بات تو اس ضرب المثل سے خوب ملتی ہے ،الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے، دونوں بھائی سیاست کی بازی کو اس بار بھر پور انداز میں کھیلنے کے لیے نکلئے تھے ،بازی پر کبھی انقلاب کا طوفان امڈا تو کبھی تبدیلی کی سونامی،لیکن اپوزیشن نے سیاستی بازی کا خوب ڈٹ کر دفاع کیا،جمہوریت کے دعوئے داروں نے حکومت کے ساتھ مل کر ہر مصیبت کو چاروں شانے چت کرنے کی ٹھانی ہوئی تھی لیکن کراچی میں رینجرز اور نیب کے ساتھ حکومتی اداروں اور سیاسی شحصیات کے خلاف کاروائیوں نے اپوزیشن کو سخت مایوس کیا جس پر اپوزیشن کے شور پر پنجاب میں احتساب کے لئے ابھی کام شور ہی ہو تھا کہ حکومت نے اس کی مخالفت کے اظہار کے ساتھ اس کو روکنے کی کوشش ہی کی تھی کہ کمبخت پانامہ لیکس نے سارے خوابوں کو چکنا چور کر دیا، جس پر سیاست کی بازی میں میاں جی اس بار جوڈیشل کمیشن کا پتا پھینکنے کو تیار تو ہیں پر اپوزیشن اس کو کھیل میں دھاندلی سمجھ کر مستر د کر چکی ہے ،میاں جی کے خطاب میں اپنے محنت کو روتے ہوئے دیکھ کر مجھے عمران خان کی محنت ذہن میں گردش کرتی معلوم ہوئی عمران خان نے جب سیاسی کیرئیر کی اننگ کوبھر پوراندازمیں کھیلنے کی ٹھانی تو کئی بار کپتان کو اس کھیل میں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا لیکن کپتان خان نے بڑی محنت کے بعد الیکشن 2013 میں اپنے پارٹی کو پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر ابھرا لیکن پنجاب میں جہاں سے وٹوں کی صندوقچیاں کھلی وہاں سے مسلم لیگ ن کا شیر نکلا،کپتان خان نے اس الیکشن کو دھاندلی زدہ الیکشن قرار دیتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کر ڈالاجس کو میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی نے تسلیم کرنے میں میں لگ بھگ ڈیڑھ سال ،دوسال کا عرصہ کا گزرا دیا، جبکہ اپنے اوپرا ن دنوں آنے والے اس فلمی سین کو تسلیم کرنے کے بجائے اس کو مستر د کرتے ہوئے بہت تھوڑے وقت میں جوڈیشل کمیشن کے قیام کو سامنے رکھ دیا ،جی ہا ں اور یہ صرف محض اس لئے کہ ہماری محنت کہیں خاک میں نہ مل جائے ،میاں صاحب یہ پتا بھی کیا خوب کھیلا ہے جوڈیشل کمیشن بنے گا ، درخواستیں دائر ہوں گئی ، انکوائری چلی گئی، نوٹس بھی آئے گا ، لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو جائے گئی اور میاں جی اپنے لاؤ لشکر اور قبیلے سمیت اس وطن کو خیر آباد کہہ دیں گئے ،ایسے لوگوں کے کام ہاتھی کے دانت کی مانند ہیں جو کھانے کے اورہوتے ہیں اور دکھانے کے اور۔۔۔۔۔۔۔۔ذرا سوچئے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
The post آف شور کمپنیاں۔۔۔۔۔۔ہاتھی کے دانت،،تحریر ۔مہرنوید حیدر appeared first on جہلم جیو.