Quantcast
Channel: JhelumGeo.com
Viewing all articles
Browse latest Browse all 5119

محکمہ صحت کی زبوں حالی۔۔ صابر مغل

$
0
0

دنیا بھر میں سب سے زیادہ توجہ تعلیم اور عوام کی صحت پردی جاتی ہے،ایک تعلیم یافتہ اور صحت مندہ معاشرہ ہی تعمیر و ترقی کی منازل میں بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے،کرہ ارض پر انسانی جان سے کچھ قیمتی نہیں،جس ریاست یا قوم نے ؤاس ضمن میں کوتاہی برتی بیماریاں اور لاچاریاں ان کا مقدر اور نصیب بن گئیں،پاکستان ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ایک ترقی پذیر مملکت ہے،اس عظیم ریاست کو حاکم اعلیٰ نے تمام تر نعمتوں سے سرفراز کیا،دنیا کی بہترین اور بھرپور صلاحیتوں سے مالا مال افرادی قوت جس کی کہیں اور مثال نہیں ملتی اس دھرتی پر بسی ہے،ہم ایٹمی قوت تو بن گئے لیکن فرسودہ اور کرپشن میں لتھڑے سسٹم کے تحت ہم آج بھی ترقی یافتہ ہونے کے ایک دنیا بھر میں ایک بھکاری کے طور پر مشہور و مطعون ہیں،کرپشن کی دلدل میں ہم غوطہ زن ہیں ۔ہم نے صحت کی سہولیات کو بھی اپنی نفسانی خواہشات کے ذریعے ۔موت ۔میں بدل کررکھ دیا ہے،یہی وجہ ہے کہ پاکستان صحت کے حوالے سے سہولیات کی فراہمی میں دنیا میں 122ویں نمبر پر ہے ،محکمہ صحت میں کرپشن انتہاؤں کو چھو رہی ہے اور اس کرپشن میں رنگے چہرے پھر بھی مسیحا کا روپ دھارے معززین کی صف میں شامل ہیں ، حال ہی میں خادم اعلیٰ کے شہر لاہورکے میو ہسپتال میں غیررجسٹرڈ ۔سٹنٹ ۔کا سکینڈل سامنے آیا ہے اس بدترین کرپشن پر سپریم کورٹ نے سو موٹو ایکشن لے لیا ہے امید ہے ذمہ داران اب نہیں بچ پائیں گے،محکمہ صحت کو بدبودار جونکوں نے چاٹ کھایا ہے،بیوروکریٹ اور سیاسی گداگر اس گنگا میں اشنان کرنے میں ذرہ کوتاہی نہیں کرتے ،یہ گندے اور گھٹیا کردار انسانی زندگی سے کھلواڑے کو اپنی کامیابی و کامرانی تصور کرتے ہیں اسی سے اپنے اور اپنے بچوں کو حرام حرام کھلا کھلا کر خود کو معززین کی فہرست میں شامل کئے ہوئے ہیں،محکمہ صحت میں کرپشن کی اتنی راہداریاں ہیں جن کے اندازہ کرنا ناممکن ہے، محکمہ صحت میں انسانوں کے ساتھ جانوروں ،حیوانوں اور درندوں سے زیادہ خطرناک سلوک کیا جاتا ہے،حکومتی نااہلی اور ہوس کی وجہ سے پاکستان کے ہزاروں ڈاکٹرز اس وقت غیر ممالک میں خدمات انجام دے رہے ہیں،امریکہ میں کام کرنے والے غیر ملکی ڈاکٹرز کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے،ناقص ترین ادویات کی بھر مار ہے ،ملک کا کوئی ایسا شہر یا قصبہ نہیں جہاں جعلی ادویات بآسانی دستیاب نہ ہوں اور ان ادویات کی اقسام ہزاروں میں ہے ،فارماسیوٹیکل کمپنیوں کا جب دل چاہے ادویات کی من مانی قیمتیں مقرر کر دیں ،ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی برائے نام ہے،فیصل آباد اور حیدر آباد میں جعلی ادویات کا کاروبار تو باقاعدہ انڈسٹری کی طرح کام کر رہا ہے ان کو چیک کرنے والے انسانیت سے کھیل رہے ہیں انہیں صرف منتھلی سے غرض ہے،اس وقت صرف پنجاب میں 23ٹیچنگ ہسپتال ،34ڈسٹرکٹ ہیڈ کوراٹرز اور88تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال ہیں جبکہ 293رورل ہیلتھ سنٹرز اور 2461بنیادی مراکز صحت ہیں،صرف پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی ہزاروں آسامیاں خالی پڑی ہیں جن میں پروفیسرر ڈاکٹرز بھی شامل ہیں،ہسپتالوں میں نہ ڈاکٹر ہے اور نہ ہی دوائی تو پھر عوام عطائیوں کے پاس کیوں نہ جائیں؟پاکستان کی80فیصد عوام ہمہ اقسام کے ٹیکس ادا کرنے کے باوجود صحت کی سہولت خود خرچ کر کے حاصل کرتی ہے، محکمہ صحت میں کرپشن اور دیگر قباحتوں کی داستان بہت لمبی ہے،لاہور ،فیصل آباد ،راولپنڈی،ملتاؤن،اسلام آباد جیسے شہروں میں موجود سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال پر سر شرم سے جھک جاتا ہے غریب عوام ان ہسپتالوں میں پہنچنے کے باوجود ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور ہے ،ملک بھر میں اگر سرکاری مراکز صحت کو بھوت بنگلہ کا نام دیا جائے تو غلط نہیں ہو گا،ہر جگہ رشوت رشوت اور سفارش کا کلچر عام ہے ،واش روم بدبودار،صفائی کا نظام شرمناک جن کی وجہ سے بیماریوں کے پھیلاؤ میں خطروناک حد تک اضافہ ہو جاتا ہے ،اس حوالے سے سب سے بد قسمت صوبہ بلوچستان ہے جہاں کے بعض ضلعی ہیڈ کوراٹرز میں صرف ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہی تعینات ہے،قحط زدہ علاقے تھرپارکر میں آج بھی تحصیل ہسپتالوں کے تالے زنگ آلود ہو چکے ہیں ،ؤمحکمہ صحت میں کرپشن کی دلدل بہت گہری ہے مرکزی اور صوبائی لیول پر پالیسیوں اور ادویات کی خریداری میں کمیشن مافیا کا راج ہے ،نچلی سطع پرہر ضلع میں ،ڈی ایچ او آفس اورڈرگ انسپکٹر آفس سے کرپشن کے سر سبز و شاداب کھیتوں کی مانند ہیں،جعلی ڈگریوں پر بھرتیاں جتنی اس محکمہ میں ہیں یقیناً کسی اور میں نہیں ہوں گی بس کرنسی بنیادی شرط ہے،ڈرگ انسپکٹرز ماہانہ کی بنیاد پر گھر بیٹھے لاکھوں روپے کماتے ہیں جن میں محکمہ کے دیگر افسران کا بھی حصہ ہوتا ہے،پاکستان کے کسی بھی چھوٹے بڑے سرکاری ہسپتال میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام دنیا کا ناکارہ ترین اور فرسودہ کرپشن زدہ ہے،ہر ضلعی ہیڈ کوارٹرز پر بعض ڈاکٹرز دس دس سال سے تعینات اپنی سرکاری رہائش گاہوں پر سینکڑوں ہسپتال قائم کئے بیٹھے ہیں جہاں بجلی ،گیس سمیت تمام سرکاری سہولیات انہیں میسر ہیں،ٹیکس کا بھی کوئی مسئلہ نہیں، مراکزصحت میں مریضوں کا جعلی اندراج کر کے تمام سرکاری با الخصوص قیمتی ادویات پرائیویٹ مارکیٹ میں لیبل تبدیل کر کے بھیجی جاتی ہیں،ان ڈور مریضوں کو مبینہ طور پر وہ ادویات لکھ کر دی جاتی ہیں جو ڈیل شدہ میڈیکل سٹورز پر دستیاب ہوں،ہسپتالوں سے سرکاری ڈرپس،سرنجین،گولیاں اور قیمتی انجکشن سب کچھ غائب ہوتا ہے،صرف وہی ادویات عوام کو فراہم کی جاتی ہیں جن کی قیمت نہ ہونے کے برابر ہو،اربوں روپے کی ایمبولینسز ہسپتالوں میں اینٹوں پر کھڑی ہیں جو مقامی عملے کی مبینہ غفلت ،ذاتی استعمال اور بعض میں تو چارہ اور کھاد تک لانے یا لے جانے کا کام کیا جاتا ہے،بڑے بڑے ہسپتالوں میں بے حسی کا عالم یہ ہے وہاں داخل ہونے والے مریض کو اس وقت تک بیڈ نہیں ملتا جب تک وہ کسی اہلکار کی مٹھی گرم نہ کر ے،کیا عجب تماشہ ہے ان ہسپتالوں میں نہ بستر ہے نہ اسٹریچر ہے مریضوں کو وہیل چیرز پر ہی ڈرپس لگائی جا رہی ہیں،ایک ایک بیڈ پر تین تین مریض چلڈرن ہسپتالوں میں یہ تعداد پانچ پانچ تک پہنچ گئی ہے ،امراض قلب کے عام مریضوں کو اینجو گرافی ،اینجو پلاسٹی یا مزید آپریشن کے لئے ایک ایک سال کا وقت دیا جاتا ہے،بجائے کچھ سدھرنےؤ کے ہر نئے روز محکمہ صحت میں کوئی نئی قباحت سامنے آ رہی ہے، ہسپتالوں میں مریضوں کو اس حد تک ذلیل و خوار کیا جاتا ہے کہ وہ ان کے ذاتی کلینکس یا پرائیویئ ہسپتالوں کا رخ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، ڈاکٹرز نے ہسپتالوں کے قریب قائم لیبارٹریوں کے ساتھ مک مکا کر رکھا ہوتا ہے ہر آنے والے مریض کو بے شمار ٹیسٹ لکھ دیتے ہیں،90فیصد میڈیکل اسٹورز غیرقانونی طور پر قائم ہیں جن پر نان کوالیفائیڈ عملہ تعینات ہوتا ہے،لائسنس ۔کسی کا اسٹور چلا کوئی اور چلارہا ہے ،یہاں تک کہ کئی مقامات پر میٹرک پاس افراد پورا ہسپتال بنا کر بیٹھے ہیں کیونکہ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے،ہسپتالوں میں ادویات کے علاوہ ملنے والے تولئے ،میٹرس،چادریں،پنکھے،لائٹس،سب ملازمین کے گھروں میں پہنچ جاتے ہیں، پنجاب کے293رورل ہیلتھ سنٹرز میں سے کم از کم 200ایسے ہیں جن میں عملہ سینکڑوں کی تعداد میں ہے جبکہ مریض ایک بھی نہیں وجہ یہ نہیں کہ وہاں کوئی مریض ہے نہیں بلکہ سب سارا عملہ ہی متعلقہ رورل ہیلتھ سنٹرز کو ۔مال مفت دل بے رحم۔کی طرح ہو تو وہاں مریض کیا لینے جائے گا؟ڈاکٹرز تو وہاں جانے میں ہی توہین محسوس کرتے ہیں ،قصبات میں قائم ان سول ہسپتالوں میں صرف جرنیٹرزمیں ڈیزل کے لئے 10لاکھ روپے کے قریب رقم مختص ہے ،ان جرنیٹرز سے مریضوں کی بجائے رہائشی کالونیاں مستفید ہوتی ہیں،ایمبولینسز اور جرنیٹرز کے تیل سے ہی انچارج ڈاکٹر کو پانچ لاکھ روپے سے زائد کی بچت ہے،ڈاکٹرز کی ذاتی گاڑیوں کے لئے فیول بھی اسی ۔مد۔سے ایڈجسٹ کیا جاتا ہے ،بنیادی مراکز صحت کو بھوت بنگلے ،ڈیرے اور جانوروں کا مسکن بنے ہوئے ہیں،ان میں عرصہ دراز سے ایک ڈسپنسر،مڈ وائف یا دائی اور نصف درجن کے قریب سیاسی بھرتی درجہ چہارم کے ملازمین جنہوں نے ڈیوٹی کے لئے اپنی باریاں بنا رکھی ہوتی ہیں تعینات ہیں، ان مراکز میں برائی کا ہر وہ کام ہوتا ہے جس کے باے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا،محکمہ صحت میں بھرتی کے لئے جعلی سرٹیفکیٹ عام مل جاتے ہیں ،سینکڑوں ملازمین جعلی ڈگریوں پر ملازمتوں کے ثمرات حاصل کر رہے ہیں ، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر تو سال میں ایک بار بھی ضلع بھر کے سرکاری ہسپتالوں کا رخ نہیں کرتے،سابقہ ادوار میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کا پروگرام شروع ہوا،حقیقت یہ کہ اس پروگرام کی افادیت مائنس زیرو ہے لیکن یہ بات اس لحاظ سے بہتر ہے کہ چلو اس ملک میں کئی گھروں کو روزگار تو ملا،رورل ہیلتھ سنٹرز،تحصیل ہیڈ کوراٹرز اور ڈی ،ٹی ایچ ،کوارٹرزمیں ڈاکٹرز کو میڈیکل لیگل سرٹیفیکیٹ کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں،اگر کسی کو ذرہ چوٹ نہیں تو کچھ مسئلہ نہیں،۔بون ڈیپ ۔کا ریٹ 15سے 20ہزار ،فریکچر کا ریٹ20سے 25ہزار روؤپے ہے،ان سنگدل اور لالچی انسان نما بھڑیوں کی وجہ سے اکثر اوقات بے گناہ افراد جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ جاتے ہیں،یہ لوگ تو پوسٹمارٹم رپورٹ تک بدل دینے کے ماہر ہوتے ہیں،صوبہ سندھ میں تھرپارکر میں ہونے والی اموات میں ایک طرف جہاں غذائی قلت کا بہت عمل دخل ہے وہاں صحت کی بنیادی سہولتوں کا نہ ہونا سب سے اہم ۔فیکٹر۔ہے، صوبہ سندھ میں سوائے چند بڑے شہروں کے صحت کی سہولتیں شرمناک ہیں اسی طرح صوبہ بلوچستان میں ایسے شہر پسماندہ بھی ہیں جہاں کے بسنے والوں کو ۔گولی۔ٹیکہ ۔تک کا علم نہیں کہ یہ سب کن بلاؤں کا نام ہے،پاکستان میں کسی غریب شخص کا بیٹا اس دور میں ڈاکٹر بننے کا صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے ،اگر وہ نوجوان ایف ایس سی میں بہترین پوزیشن لے بھی جائے تو اسے ۔مافیا۔کے ایک مخصوص عمل کے تحت انٹری ٹیسٹ کے تحت نکال باہر کیا جاتا ہے،ایم بی بی ایس کے کورس کے لئے کم از کم 50لاکھ روپے پاس ہونا ازحد ضروری ہیں ،الراقم کئی ایسے افراد کو جانتا ہے جن کے بیٹے بیٹیوں نے ایف ایس سی میں مناسب سے نمبر لئے لیکن آج وہ میڈیکل کالجز میں زیر تعلیم ہیں،جو شخص 50لاکھ روپے لگا کر اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنوائے گا وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کا بیٹا یا بیٹی کسی ۔گاؤں ۔میں ڈیوٹی سر انجام دے،ؤکئی ڈینٹل سرجن یا ایم بی بی ایس نوجوان اپنی پہلی تقرری پر کسی گاؤں کا رخ کرتے ہیں لیکن پہلے تو وہ ہفتہ میں صرف ایک دفعہ صرف حاضری لگانے کے لئے وہاں جاتے ہیں اور پھر جلد ہی وہ لاہور،راولپنڈی ،کراچی،پشاور ،کوئٹہ یا مزید کسی بڑے اور قریبی شہر کا رخ کرتے ہیں، گذشتہ روز ہی لاہور ہائی کورٹ نے میڈیکل کالجز میں کوٹہ سسٹم کالعدم دے ڈالا ،عوامی نمائندگان اورکئی اعلیٰ آفیسرایک ایڈمیشن پر کم از کم 15لاکھ روپے لیتے ہیں جبکہ ٹاؤٹ کا حصہ الگ سے ہے ۔ آج کے سرکاری ہسپتال تو مذبحہ خانوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں جہاں ہر طرح سے چمڑی اتارنے اور ادھیڑنے کا کام نہایت احسن انداز میں کیا جاتا ہے ،یہ سب ہر جگہ ہو رہا ہے پورے ملک میں ہو رہا ہے،لیکن وزیر صحت ،سیکرٹری ہیلتھ،ڈی ایچ اواور ڈسٹرکٹ ڈرگ انسپکٹرز سب گونگے اور اندھے ہیں،ان سے اوپر والے طبقے کا تو یہ شاید یہ وطن ہی نہیں،ہر گلی محلے میں ہسپتال قائم ہیں،جعلی اور جاں لیوا ادویات کی بھرمارہے ،ایک طرف بیماریوں کی بہتات ہے تو دوسری طرف سہولتوں کا فقدان ہے،ایک طرف بے روزگار،نادار،قرض داراور بیمار ہیں اور دوسری طرف جاگیر دار،سرمایہ دار ۔سرکار اور اقتدار ہے،وزیر اعظم میاں نواز شریف نے تین ماہ قبل پاکستان میں 30جدید ترین ہسپتالوں کی تعمیر کا اعلان کیا تاحال اس اعلان پر عمل درآمد بھی شروع نہیں ہو سکا ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے ہسپتالوں کی حالت زار ہنگامی بنیادوں پر بہتر بنانے کی ضرورت ہے ، پاکستان کے اہم ترین شعبے پر چیک اینڈ بیلنس نام کی کوئی چیز نہیں،آج تک کوئی قیادت صحت کے حوالے سے نہ کوئی واضح پالیسی تیار کر سکی اور نہ ہی کچھ بہتری لا سکی ،سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں صحت کہیں بہت دور ہے سب آپس ؤمیں مل کر عوام کا خون چوس رہے ہیں اور جن کا خون چوسا جائے وہ کسی کام کے نہیں رہتے……

The post محکمہ صحت کی زبوں حالی۔۔ صابر مغل appeared first on JhelumGeo.com.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 5119

Trending Articles