انسانی زندگی کو فنا ہونا ہوتا ہے ،اس حقیقت سے دنیا کا کوئی فرد انکار نہیں کر سکتا ،انسان جہاں بھی ہو کہیں بھی بھاگ جائے موت سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا ،فطرت خدواندی ہے کہ ہر بچھڑنے والے پر ۔صبر۔آ ہی جاتا ہے مگر ایسی اموات جو کسی کی غفلت،مصلحت،لالچ یا مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ جائیں انہیں بھلانا ،ان پر صبر کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے ،تین فروری کو پنجاب کے ضلع ننکانہ کے سرحدی قصبہ سید والا جو کہ دریائے راوی کے کنارے آباد ہے وہاں ہنستے ،مسکراتے افراد کو دریا کے بیچ میں پہنچنے کے بعد موت نے آن گھیرا،11.45 پرمسافروں سے کچھا کھچ بھری کشتی(جس پر درجنوں موٹر سائیکل بھی رکھے ہوئے تھے) لوہے سے بنے عارضی پل سے جو پانچ روز قبل دریا میں زیادہ پانی آ جانے کے باعث زیر آب آ چکا تھا سے جا ٹکرائی ،اس ٹکر کے باعث مسافروں سے بھری کشتی درمیان سے اکھڑ گئی اور پانی بھرنا شروع ہوا، مسافروں پر قیامت ٹوٹ پڑی ،دیکھتے ہی دیکھتے کشتی دریا کی تہہ میں جا پہنچی ،کشتی میں سوار مسافروں کی چیخ و پکار سے کہرام پربا ہو گیا،کئی افراد بے بسی کے عالم میں چمکتے سورج سے گہرائی کے اندھیروں میں جا پہنچے ،کئی خوش قسمت افراد کسی نہ کسی طرح غوطے کھاتے بچنے میں کامیاب ہو گئے کئی کو دریائے کنارے موجود لوگوں نے بچایا،اس المناک واقعہ کی اطلاع ملنے کے بعد قریبی دیہات سے سینکڑوں موقع پر پہنچ گئے، عینی شاہدین کے مطابق کشتی میں گنجائش سے کئی گناؤ زیادہ افراد سوار تھے اور چلنے سے قبل ہی ہچکولے کھا رہی تھی،ایک عینی شاہ کے مطابق کشتی پر 40کے قریب موٹر سائیکلیں اور چھوٹے جانور بھی سید والا سے اوکاڑہ کی طرف منتقل کئے جا رہے تھے، بلوکی کے دو رہائشی بھائیوں محمد رمضان اور لیاقت علی نے بتایا کہ ہم دریا پار کرنے کے لئے کشتی میں سوار ہونے لگے مگر گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے کنارے پر کھڑے رہے اور ہماری آنکھوں کے سامنے ہی یہ افسوسناک واقعہ رونماء ہوا،سرکاری ریسکیو کے لئے سب سے قبل اوکاڑہ کی ٹیم وہاں پہنچی اس کے بعد جڑانوالا،ننکانہ ،فیصل آباد ،شیخو پورہ کی ٹیمیں پہنچیں،تاہم ضلعی انتظامیہ کے لیٹ پہنچنے پر ورثاء نے احتجاج کیا تو پولیس ان پر لاٹھی چارج کرنے سے باز نہ آئی ،ریسکیو کے میڈیا کوآرڈینیٹرعلی اکبر نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ریسکیو کی ٹیموں کے پہنچنے سے قبل ہی مقامی افرادنے بڑی تعداد میں لوگوں کی جان بچائی ،ڈپٹی کمشنر سائرہ عمر اور ڈی پی او ننکانہ صاحب صاحبزادہ عمر بلال سمیت ضلعی انتظامیہ کے افسران موقع پر پہنچ گئے،جبکہ اوکاڑہ کی ڈپٹی کمشنر صائمہ احد اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اوکاڑہ رانا فیصل بھی موقع پرپہنچ کر امدادی سرگرمیوں کی مانیٹرنگ کرتے رہے،رات اندھیرا پھیلنے پر ریسکیو سرگرمیوں کو بند کیا گیا تاہم لواحقین ساری رات دریا کنارے اپنے پیاروں کی تلاش میں دعا کرتے اور روتے رہے، چیف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باوجوہ نے اس المناک آحادثہ کا نوٹس لیا اور ان کی ہدایت پر تربیت یافتہ فوجی جوانوں کا ایک دستہ ریسکیو کرنے وہاں پہنچ گیا ،4فروری کی صبع سے سارا دن 70فوجی جوان8کشتیوں اور ریسکیو 1122 کے بھی 80
اہلکار کشتیوں میں سارا دن لاپتہ افراد کی تلاش میں مصروف رہے تاہم رات گئے تک ایک بھی نعش نہ مل سکی،ان کے علاوہ جماعت الدعواۃ اوکاڑہ کے درجنوں کارکنان نے بھی امدادی کاروائیوں میں بھرپور حصہ لیا، البتہ شام کے قریب قبل ڈوبنے والی کشتی کو نکال لیا گیا،عینی شاہدین ،ٹھیکیدار اور ملاح کے متضاد بیانات سے اصل صورتحال واضح نہیں ہو سکی کہ ڈوبنے والوں کی اصل تعداد کیا تھی،ڈی سی ننکانہ نے بتایا کہ سیدوالا ،جڑانوالا اور اوکاڑہ میں ریسکیو آفس قائم ہوکئے گئے ہیں جہاں پر ابھی تک کسی بھی لاپتہ افراد کے لواحقین کی درخواست موصول نہیں ہوئی۔سید والا کا علاقہ ضلع ننکانہ،ضلع فیصل آباد ،ضلع شیخو پورہ اور ضلع اوکاڑہ کو آپس میں ملاتا ہے ،فیصل آباد سے 60کلومیٹر اس کی تحصیل جڑانوالا سے25کلومیڑ دور اس قصبہ کو 2005میں ننکانہ صاحب کے ضلع بننے پر اس میں شامل کر دیا گیا،اوکاڑہ کے ہیڈ کوارٹر سے اس کا فاصلہ تقریباٍ 30کلومیٹر ہے ، جغرافیائی محل و قوع کی پر تقریبا40سال قبل یہاں دریائے راوی پر پختہ پل قائم کرنے کا منصوبہ بنا جس پر گذشتہ35سال سے کام جاری ہے مگر آج بھی وہ نا مکمل ہے،اس گذر گاہ کی وجہ سے اوکاڑہ اور سید والا کے درمیان 70کلومیٹر سفر کم ہو جاتا ہے،اس اہم ترین مقام سے پختہ پل نہ ہونے کے باوجود روزانہ گذرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ،اس وقت اوکاڑہ شہر،رینالہ خور،دیپالپور ،چوچک،کوہلہ ،جبوکہ ،ستگھرہ ،نور شاہ ،گیمبر،صدر گوگیرہ ،اڈانول پلاٹ جندراکہ سمیت سینکڑوں قصبات و دیہات اوردوسری جانب سید والا ،بچیکی ،لنڈیا والا،جڑانوالا ،ننکانہ،شاہ کوٹ اور ان کے نواحی علاقوں کے رہائشی افراد کا روازنہ کی بنیاد پر یہاں سے گذر ہوتا ہے ، یہاں زیر تعمیر پل کے مکمل ہونے پر نہ صرف اوکاڑہ بلکہ دیگر اضلاع پاکپتن،ساہیوال ،بہاولنگر،ننکانہ صاحب،شیخو پورہ،حافظ آباداور فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالاکی عوام کو ایک سیدھا اور شارٹ کٹ راستہ مل جائے گا،ہیڈ بلوکی اوراوکاڑہ فیصل آباد روڈ پر دریائے راوی کے ۔ماڑی پتن ۔کے نام سے قائم پل کے علاوہ درمیان میں کوئی پختہ پل نہیں ہے اہمیت کے لحاظ سے صرف یہی جگہ میرٹ پر نمبر ون ہے ، لاہور سے صرف 120کلومیٹر دور زیر تعمیر یہ پل خادم اعلیٰ کی نظر سے بھی پوشیدہ رہا ،پاکستان کی تاریخ یہ یقیناٍ یہ واحد پل ہو گا کی جس کی تعمیر میں 35 سال ہو چکے ہیں مگر تکمیل پھر بھی نہیں ہو سکی ،اس پل کی تعمیر میں سست روی پر تو حکومت کو عالمی ۔اعزاز۔ملنا چاہئے ، یہی وہ مقام ہے جہاں23جنوری1997۔13رمضان المبارک کو بھی کشتی ڈوبنے کا ایک سانحہ رونما ہوا تھا جس کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ اس حادثہ میں 150سے200کے قریب افراد جان کی بازی ہار گئے تھے اس حادثہ میں ڈوبنے والوں کی نعشیں ایک ماہ بعد تک بھی ملتی رہیں وہ کشتی اس ڈوبنے والی کشتی سے کہیں بڑی تھی۔ایک رپورٹ کے مطابق اس مقام پر پختہ پل کی تعمیر میں مجرمانہ غفلت سے ڈوبنے والے افراد کی تعداد 600 سے700کے قریب ہے ،چار دہائیوں سے زیر تعمیر اس پل کا نہ جانے کتنی بار ہمارے حکمران جن میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بھی شامل ہیں افتتاح کر چکے ہیں۔اس نوعیت کی گذر گاہیں پنجاب اور سندھ میں بہت زیادہ ہیں تاہم وہ مقام جو اہمیت کے لحاظ سے اہم ترین ہو اور چار دہائی قبل وہاں پختہ پل بنانے کا منصوبے کو ضروری قرار دیا جائے مگر اس کے باوجود وہ چالیس سال بعد بھی مکمل نہ ہو سکے تو اس سے بڑی غفلت اور کوتاہی اور کیا ہو سکتی ہے ، ایک ارب25کروڑ روپے کی لاگت سے سید والا پل کی تعمیر اس وقت بھی کچھوے کی چال ؤسے بھی کم رفتار میں جاری ہے ،اس پل کے قائم ہونے سے جہاں قیمتی انسانوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے وہیں فاصلے سمٹ آئیں گے اور یہ علاقہ ترقی کے نئے دور میں داخل ہوجائے گا ،کاش ہمارے حکمرانوں کا دیہی علاقوں کی ترقی کی جانب بھی دھیان ہو جائے۔اس وقت سید والا کی فضا انتہائی سوگوار ہے اور وہاں دہشت کا سماں ہے۔
The post سید والاکے قریب کشتی الٹنے کا المناک واقعہ ( پہلو ۔۔۔۔صابر مغل ) appeared first on JhelumGeo.com.