پھول جیسے بچوں کے پنکھڑی جیسے ہونٹوں سے جب یہ معصوم دعا ’’ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری،زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری‘‘ فضاؤ ں میں بلند ہوتی تو ہر سو ایک سحر طاری ہوجاتا تھا۔میں خود بچپن میں سکول صرف اس لیے وقت سے بہت پہلے پہنچنے کی کوشش کرتا کہ میں سٹیج پر موجود اپنے ساتھی بچوں کے ہمراہ یہ خوب صورت دعا پڑھوں گا۔سارا سکول تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبولﷺ کے بعد یہ دعا اور پھر قومی ترانہ مل کر پڑھتا۔ہیڈ ماسٹر صاحب مارننگ اسمبلی میں ہمیں خوب صورت اور سبق آموز باتیں بتاتے جو آج تک ہمیں یاد ہیں اور ہماری زندگی میں ہمارے لیے مشعل راہ کا کردار ادا کر رہی ہیں۔اسمبلی کے بعد جب قطاروں میں چلتے چلتے ہم ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرتے تو بہت اچھا لگتا۔کمرہ جماعت میں ہمیں پڑھانے کے لیے آنے والے تمام اساتذہ کے ہنستے اور مسکراتے چہرے ہمیںیاد ہیں ہم ان چہروں پر مسکان کی خاطر نظم وضبط کا مظاہرہ کرتے اورخوب دل لگا کر پڑھائی کرتے کیونکہ ہمیں علم ہوتا تھا کہ جونہی ہم نظم وضبط کی خلاف ورزی کریں گے یا ان کاگھر اور سکول میں دیا ہوا کام نہیں کریں گے تو ان کے چہروں سے مسکراہٹ غائب ہوجائے گی ۔وہ اس غصے میں کبھی کبھی اگر بعض بچوں کو سزا دیتے تو بچوں کو شرمندگی تو محسوس ہوتی لیکن وہ عزم کر لیتے کہ آئندہ اپنے اساتذہ کے چہرے کی مسکان کی خاطر وہ ان کی کہی ہوئی ہر بات مانیں گے ۔یوں ہم جب تک سکول میں پڑھتے رہے اساتذہ کے مسکراتے چہرے ہی دیکھتے رہے۔ان کے مسکراتے چہروں کی شائد ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کا کا م صرف پڑھانا اور ہماری تربیت کرنا تھا۔انہیں ہم نے کبھی کوئی غیر ضروری کاغذی کام کرتے نہ دیکھا یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی ساری توجہ ہم پر مرکوز رکھتے اور ہمیں بھی ان کے ساتھ وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا اور چھٹی کی گھنٹی بج جاتی۔ہم چھٹی کی گھنٹی بجنے پر خوشی کا اظہا ر اس لیے نہ کرتے کہ ہماری اب سکول سے جان چھوٹ جائے گی بلکہ ہم خوش اس لیے ہوتے کہ ہم اپنے اساتذہ کا دیا ہوا کام خوب صورت انداز سے کر کے لائیں گے تو وہ ہمیں شاباش دیں گے،ہمارے منھ پر سٹار بنائیں گے اور پھر ہم وہ سٹار اپنے ہم جماعتوں، دوستوں اور گھروالوں کو دکھا کر کتنے خوش ہوتے۔کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ جب کام خوب صورت نہ ہوتایا غلطیا ں زیادہ ہوتیں تو وہ ہمارے چہروں پہ بلیک سپاٹ بھی بنادیتے لیکن ہم اس وقت تہیہ کر لیتے کہ آج ہمیں بلیک سپاٹ ملا ہے تو کل ہم ضرور پھر سے سٹار لیں گے۔یوں نرسری سے دہم جماعت تک زندگی کے خوب صورت گیارہ سال گزر گئے اور ہمیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔اساتذہ کے ان ہنستے اور مسکراتے چہروں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم نے بھی ارادہ کیا کہ معلمی کا پیشہ ہی اختیار کریں گے۔مگر جب شعبہ درس وتدریس کا حصہ بنے تو ایسا لگا جیسے اب کسی نے اساتذہ کے چہروں سے وہ ہنسی اور مسکراہٹ چھین لی ہے جو آج سے چند ہی برس پہلے ہمارے اساتذہ کے چہروں پہ ہوا کرتی تھی۔مارننگ اسمبلی کو صرف دہشت گردی اور
ڈینگی مچھر کا بہانہ بنا کر ہمیشہ کے لیے ختم کردیا گیا۔اب ہمارے سکولوں میں ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کہ تمنا میری، زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری ‘‘ کی صدائیں بلندنہیں ہوتیں۔بچے او راساتذہ اپنے دن کا آغاز اب تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول ﷺکے بجائے صرف اس خوف میں مبتلا ہو کے کرتے ہیں کہ پتا نہیں آج کون ہمارے سکول میں معائنہ کے لیے آئے گا۔اب اساتذہ کو بہت زیادہ کاغذی کاموں میں الجھا دیا گیا ہے۔ان کاغذی کاموں کی وجہ سے وہ بچوں پر مکمل طور پر توجہ نہیں دے پاتے۔جس کی وجہ سے وہ سکول سے دور رہنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔جب وہ سکول میں نہیں آتے تو استاد اور ہیڈ ماسٹر کو کہا جاتا ہے کہ ان کو سکول میں لے کے آنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔’’مار نہیں پیار‘‘ کا ایک نعرہ عام کرنے کی کوشش جاری ہے مگر ان سیانوں سے کوئی یہ تو پوچھے کہ اگر سکولوں میں سٹاف کی کمی کے باوجود جب اساتذہ کو بے تحاشا اور غیر ضروری کاغذی کام میں الجھا دیاجائے تو وہ کیسے پیار ،محبت،لگن اور شوق کے ساتھ بچوں کو پڑھاپائیں گے۔ اگر سکول میں چھے اساتذہ اور چھے کمرے موجود نہیں ہیں تو یہ ہمار ی خام خیالی اور خوش فہمی ہے کہ ہم بچوں کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں۔
بعض علاقوں سے روزگار کی تلاش میں چند خاندان(پٹھان اور خانہ بدوش) عارضی طور پر ہجرت کرکے دوسرے علاقوں میں آ جاتے ہیں اور اپنے بچوں کو پڑھانے کی خاطر سرکاری سکولوں میں داخل کروا دیتے ہیں۔یوں اس علاقے میں شرح داخلہ میں اضافہ ہو جاتا ہے مگر جب انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب ان کی مرضی کا روزگار کسی دوسرے علاقے میں مل سکتا ہے تووہ وہاں سے کسی اور علاقہ میں ہجرت کر جاتے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ یہ لوگ کئی خاندانوں کے ساتھ مشترکہ ہجرت کر تے ہیں۔یوں ان کو تو روزگارمل جاتا ہے مگر جب یہ کئی خاندانوں کے بچے سرکاری سکولوں میں بغیر کسی اطلاع کہ انہیں چھوڑ دیتے ہیں تو ایک دم سرکاری سکولوں سے بچوں کی تعداد میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔اس صورت حال کو ڈراپ آؤٹ کا نام دیا جاتا ہے۔اس صورت حال میں بھی اس سکول کے اساتذہ اور ہیڈ ٹیچر کو ذمہ دار ٹھہرا کر ذہنی اذیت پہنچائی جاتی ہے ۔حالانکہ اس کا ذمہ دار کسی طرح سے بھی استاد یا ہیڈ ٹیچر نہیں ہوتا۔اسی ذہنی اذیت کی وجہ سے پچھلے دنوں ضلع منڈی بہاؤالدین کے ایک پرائمری ٹیچر اختر حسین دل کے دورے کے بعد وفات پاگئے۔
قصہ مختصر یہ کہ آج کے استاد کی حالت یہ ہے کہ سکولوں میں سٹاف کی کمی کی وجہ سے وہ بھرپور طریقے سے تدریسی سرگرمیوں کی مدد سے بچوں کو تعلیم نہیں دے پاتاجبکہ نجی سکولوں میں ہر جماعت کے لیے ایک استاد ضرور بھرتی کیا جاتا ہے۔یہ صورت حال دیکھ کر لوگ اپنے بچوں کو سرکاری کے بجائے نجی سکولوں میں داخل کروانے کو ترجیح دیتے ہیں۔اس کے بعد سرکاری سکولوں کے پرائمری اساتذہ کو اپنے علاقے میں سروے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے کہ وہ پچھلے چار سالوں میں پیدا ہونے والے بچوں کے والدین کو رضامند کریں کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکول میں داخل کروائیں۔لیکن سٹاف کم ہونے کے باعث لوگ اپنے بچوں کو سرکاری کے بجائے نجی سکول میں داخل
کروانے کا فیصلہ کر چکے ہوتے ہیں۔جو بچے سکول میں داخل ہوجاتے ہیں وہ اساتذہ کے بے تحاشا کاغذی کام اور معائنہ کاروں کے لیے
ریکارڈ مکمل کرنے کی وجہ سے مناسب توجہ نہ ملنے کے نتیجے میں سکول سے چھٹی کرنے کی عادت بنا لیتے ہیں۔چھٹی کرنے والے بچوں کو سکول میں بھیجنے کی ذمہ داری مکمل طور پر والدین کی ہے مگر ستم ظریفی دیکھیں کہ اس کا ذمہ دار بھی اساتذہ اور ہیڈ ٹیچرز کو ٹھہرا کر انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ ان بچوں کی حاضری کو یقینی بنائیں ورنہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔’’ مار نہیں پیار‘‘ کے نعرے کی وجہ سے وہ بچوں کو سختی سے بھی ان غیر ضروری چھٹیوں سے نہیں روک پاتے۔اس کے علاوہ دیہاتوں میں اکثر بچے کاشتکاروں کے ہوتے ہیں انہیں ماں باپ کا ہاتھ بٹانا ہوتا ہے ۔کاشتکاری اور مال مویشیوں کی دیکھ بھال میں ہی ان کا وقت ضائع ہوجاتا ہے ان کاموں کے لیے انہیں بہت زیادہ چھٹیاں بھی کرنا پڑتی ہیں۔اس معاملے میں بھی اساتذہ کو ذمہ دار ٹھہرا کر انہیں ذہنی اذیت پہنچائی جاتی ہے ۔دوسرے لفظوں میں ہم کہ سکتے ہیں کہ استاد کے ہاتھ پاؤ ں باندھ کر اسے نظم وضبط قائم کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔جو کہ کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے۔
ماہرین نفسیات ثابت کر چکے ہیں کہ تمام بچے ذہین نہیں ہوتے بلکہ ذہانت کے اعتبار سے ان کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔اس لیے عام فہم بات ہے کہ امتحانات میں بھی وہ اپنے ذہن کے مطابق ہی کار کردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔جو بچے ذہین ہوتے ہیں وہ اعلیٰ نمبروں کے ساتھ کامیابی حاصل کرتے ہیں۔جو کم ذہین ہوتے ہیں وہ اعلیٰ نمبروں سے تو کامیاب نہیں ہوتے مگر کند ذہن بچوں کے مقابلے میں ان کی پوزیشن بہتر ہوتی ہے۔کند ذہن بچے امتحانات میں کامیابی حاصل نہیں کرپاتے اگران کند ذہن بچوں میں سے کچھ بچے تھرڈ ڈویژن میں کامیاب ہوبھی جاتے ہیں تو یہ ان کے والدین اور اساتذہ کی محنت اور دلچسپی کا نتیجہ ہوتا ہے۔جو کند ذہن بچے والدین اور اساتذہ کی محنت اور دلچسپی کے باوجود کامیاب نہیں ہو پاتے ان کی ناکامی کا ذمہ دار بھی اساتذہ اور ہیڈ ٹیچرز کو ٹھہرایا جاتا ہے اور سزا کے طور پر ان کی تنخواہوں میں سے سالانہ ترقی روک لی جاتی ہے،کبھی ان کا تبادلہ دور راز کے کسی علاقے میں کر دیا جاتا ہے اور کبھی کبھی تو انہیں ملازمت سے ہی فارغ کردیا جاتا ہے۔ان سب کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود سکیل اپ گریڈیشن نہ دینے،محکمانہ ترقی کا عمل بہت زیادہ سست ہونے اور سرکاری سکولوں کی نجکاری کے خطرات بھی ہر وقت اساتذہ کے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔
ان تمام پابندیوں اور سزاؤں کے خوف کو ذہن میں رکھ کر ایک استاد کس طرح پاکستان کے معماروں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر پائے گا ۔حکمران اگر واقعی ’’ پڑھو پنجاب ،بڑھو پنجاب ‘‘ کے نعرے کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں تو جس طرح انہوں نے بچوں کے لیے ’’مار نہیں پیار ‘‘ کا تصور عام کیا ہے اسی طرح اپنے روحانی والدین اساتذہ کو بھی ان پابندیوں اور سزاؤں کے خوف سے باہر نکالنا ہو گا۔یہی وہ واحد راستہ ہے جس کو اختیار کرکے اساتذہ کے چہروں پر وہ مسکراہٹ دوبارہ لائی جاسکتی ہے جو کہ کچھ عرصے سے کھو گئی تھی۔
The post (اساتذہ کے چہروں سے مسکراہٹ چرانے والے چند تلخ حقائق) ،،،،، ( احسان شاکر ) appeared first on JhelumGeo.com.