جہلم کی دو تحصیلوں یعنی تقریباً142 کلو میٹر پر محیط قومی اسمبلی حلقہ این اے63 ہے جس میں ضمنی الیکشن31 اگست کو منعقد ہو رہے ہیں جو نوابزادہ اقبال مہدی ایم این اے کی وفات کے بعد خالی ہونے والی نشست پر ہو رہے ہیں، الیکشن2013 ء میں اس نشست پر مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے نوابزادہ اقبال مہدی، پاکستان تحرک انصاف کے امیدوارمحمود مرزا جہلمی، مسلم لیگ ق کے امیدوار چوہدری فواد حسین ،پاکستان پیپلز پارٹی کے راجہ محمد افضل خان کے درمیان تھا۔ جو اب تبدیلی کے بلند بانگ نعرے لگانے والوں کی وجہ سے تبدیل ہوکر اب ان امیدواروں کی سیاسی وابستگیاں سائبیریا کے پرندوں کی طرح ہجرت پذیر ہو گئی ہیں ۔ جس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے محمود مرزا جہلمی ہائی کمان کے غلط فیصلوں سے بغاوت کر کے اپنی سابقہ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے اپنے نوجوان بیٹے جہانگیر محمود مرزا ایڈووکیٹ کو میدان سیاست میں اتارا ہے۔ مسلم لیگ ق کے چوہدری فود حسین نے پاکستان تحریک انصاف میں اپنی سیاسی ہجرت مکمل کی ہے، راجہ محمد افضل خان نے ضمنی الیکشن لڑنے کی بجائے دیگر جماعتوں میں مختصر قیام کے بعد دوبارہ اپنی پرانی جماعت مسلم لیگ ن میں جہاں چوہدری سعید اقبال سابق ایم پی اے، مہر محمد فیاض ایم پی اے جیسے شاگرد رشید وں کی چھتری تلے آنا ہی عافیت سمجھی ہے، راجہ مطلوب مہدی تو اپنے والد کی خالی نشست پر پہلی دفعہ میدان سیاست میں قدم رکھ رہے ہیں،
ضلع جہلم میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور پارٹی تبدیلیاں اس طرح جاری ہیں جیسے نادر شاہ جب چاہتا دہلی اجاڑ دیتا تھا۔ یہی حال جہلم کے سیاستدانوں نے کونسلرز، چےئرمین اور دیگر نظر انداز لوگوں کی حمایت کی خبریں لگوا کر تاثر دینے کی کوشش کی جاری ہے کہ علاقائی سیاست میں ہمارا بڑا اثر ہے۔ جبکہ لگتا ہے کہ اپنے اندر کے خوف کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں، جیسے جب کوئی بچہ ڈر کے خوف سے اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے مگر اندر کا خوف اسے چین لینے نہیں دیتا،
سیاسی جوڑ توڑ سیاسی جماعتوں کا بنیادی حق ہے مگر عوام کے اپنے ذاتی مسائل بھی ہوتے ہیں مگر سیاستدانوں نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر عوام کو قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں جب مقابلہ ہوتا ہے تو جیت ایک کی ہوتی ہے دیگر کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر منجھے سیاستدان شکست کو بھی ایک اگلا زینہ سمجھ کر اگلے مقابلے کیلئے تیاری شروع کر دیتے ہیں۔
ضمنی الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ ن کے دو دھڑے جو بظاہر ایک ہی امیدوار راجہ مطلوب مہدی کیلئے سرگرم ہیں ،چوہدری لال حسین ایم پی اے گھرمالہ خاندان اور دیگر ممبران قومی و صوبائی اسمبلی ممبران میں سرد جنگ جاری تھی، کہ نوابزادہ اقبال مہدی کی وفات کے بعد مسلم لیگ پر ایک کڑا امتحان شروع ہو گیا پاکستان مسلم لیگ ن کی ضلعی صدارت چوہدری بوٹا جاوید مونن اور جنرل سیکرٹری حافظ اعجاز جنجوعہ جبکہ سٹی جہلم کی صدارت شاہد رسول ڈار کے حصے میں تھی، عام لوگوں کا خیال تھا کہ گھرمالہ خاندان نوابزادہ خاندان کے ساتھ نہیں ہو گا کیونکہ مہر محمد فیاض ایم پی اے، راجہ اویس خالد ایم پی اے چوہدری نذر گوندل ایم پی اے نوابزادہ اقبال مہدی گروپ میں تھے اور گھرمالہ خاندان دونوں بھائیوں کا گروپ تھے ، مگر دونوں کی رسائی میاں برادران تک ضرور تھی، اب جب جہانگیر محمود مرزا اور چوہدری فواد حسین نووارد راجہ مطلوب مہدی کے مدمقابل آ گئے تو انہیں سیاسی بازؤں کی اشد ضرورت پڑ گئی کیونکہ عوام بجلی کی منہ زور لوڈشیڈنگ، مہنگائی بے روزگاری کے علاوہ حلقہ پی پی26 اور حلقہ این اے63 کی عوام کا بنیادی مسلۂ پینے کے صاف پانی کے ساتھ نالہ گہان پر زیر تعمیر پل تھا جو دوران تعمیر ہی گر گیا اور عوام آنکھیں ملتی رہ گئی جس سے مسلم لیگ ن کی ساکھ کافی حد تک متاثر ہوئی بلکہ ایک سیاسی دھبہ بھی لگ گیا، نالہ گہان میں پانی آنے پر موٹر سائیکل سواروں او چھوٹی گاڑیوں والوں کی پریشانی میں اضافہ ہو جاتا حکومتی منظور نظر افراد نے لکڑی کے تختے لگا کر عوام سے غنڈہ ٹکس (پیسے بٹور) رہے تھے اور انتظامیہ اور ممبران قومی و صوبائی اسمبلی خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے، ان تمام صورتحال کے پیش نظر اور حاکم وقت کے بڑے خادمین شریف برادران کاحکم ۔مرتی کیا نہ کرتی کے متراف مجبوراًیہ کہنا پڑا کہ یہ ضمنی الیکشن نوابزادہ خاندان کا نہیں بلکہ گھرمالہ خاندان کا ہے اس کیلئے دن رات ایک بھی کر دیا مگر خادمین اعلیٰ کے دل کے وسوسے نے انہیں پریشان کر دیا کہیں ضمنی سیٹ ہاتھ سے نہ چلی جائے انہوں نے سرکاری مشینری کے طور اپنے26 ممبران اسمبلی و صوبائی عہدیداران کی ڈیوٹی این اے 63 میں لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ منتخب عہدیداران و ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی کارکردگی سے مطمین نہیں ہیں یا میر جعفر میر صادق کی بو آ رہی تھی۔ ۔۔؟
ضلع جہلم پی پی 26 کے ضمنی الیکشن کے بعد عصبیت کا شکار ہو گئی ہے یہی سلسلہ تا حال جاری ہے اگر عوام اور سیاستدان برادری ازم سے باہر نہ نکلے تو متوسط طبقے کی آواز تمام عمر ایوانوں تک نہیں پہنچے گی
، راجہ محمد افضل خان نے گذشتہ روز پریس کانفرنس کرکے دوبارہ مسلم لیگ ن کی حمایت کا اعلان کیا جس میں ان کے ہمراہ ضلعی عہدیداران پاکستان مسلم لگ ن یا مقامی ایم این اے یا ایم پی اے بھی موجود نہ تھے ۔ اگلے روز راجہ محمد افضل خان سابق ایم این اے کی زیر سرپرستی ممبر صوبائی اسمبلی بننے والے سابق ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری سعید اقبال نے ایک پروگرام اپنے ڈیرے پر رکھا جس میں ان کے دوسرے شاگرد رشید مہر محمد فیاض بھی ریلی کی شکل میں آئے اور مطلوب مہدی امیدوار ایم این اے پہلی دفعہ اس ڈیرے پر آمد ہوئی اس جلسہ میں گھرمالہ خاندان کے کسی فرد اور ضلعی صدر، جنرل سیکرٹری مسلم لیگ ن و دیگر عہدیداران نے شرکت نہ کر کے راجہ محمد افضل کی اس آمد اور حمایت پر خوشی کا اظہار نہیں کیا بلکہ مہر محمد فیاض اور چوہدری سعید اقبال کا کردار کھل کر سامنے آ گیا ہے کیونکہ مہر فیاض اور سعید اقبال کا تعلق این اے62 سے ہے اور عوام سوچنے پر مجبور ہیں کہ ہم گھرمالہ خاندان یا مہدی خاندان کو ووٹ دینی ہے یا میاں برادران کی مسلم لیگ کو۔۔۔ فیصلہ ووٹرز کے ہاتھ میں ہے۔ جبکہ گھرمالہ خاندان نے پاکستان مسلم لیگ ن کیلئے گجر ہاوس کے نام پر ایک مستقل عوامی رابطہ دفتر بنا رکھا ہے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے این اے63 سے مسلم لیگ ن کی حمایت واپس لے لی ہے۔ اب ووٹرز آزاد ہیں
پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار جہانگیر محمود مرزا ایڈووکیٹ کے والد محمود مرزا جہلمی جو کہ 2013 کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر تھے اب پی پی پی کے عہدیداران و کارکنان جس جوش اور جذبے سے کام کر رہے ہیں سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ،، ندیم افضل چن، چوہدری آصف بشیر بھاگٹ اور ندیم اصغرکائرہ راجہ عمران اشرف مہم جاری رکھے ہوئے ہیں پنڈدادنخان کی عید ملن پارٹی، کالا گوجراں عید ملن پارٹی اور ورکرز کنونشن کے بعد محمود مرزا جہلمی کی کوششوں سے پنڈدادنخان پی پی پی کیلئے مفید ثابت ہوگی چونکہ مسلم لیگ ن نے چوہدری عابد جوتانہ کی حمایت لے کر چوہدری نذر گوندل ایم پی اے کی کاوشوں کو مشکوک بنا دیا ہے ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ بہرحال پی پی پی کا امیدوار جہانگیر محمود مرزا ایڈووکیٹ نے نوابزادہ خاندان اور لدھڑ خاندان کو گلی گلی اور گھر گھر جانے پر مجبور کر دیا ہے جہانگیر مرزا الیکشن مہم سے پر امید ہے اور بھر پور مقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے کیونکہ اس کا والد محمود مرزا جہلمی پرانا اور الیکشن مہم سے بخوبی واقف ہے فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔
چوہدری فواد حسین کا این اے 63 کا الیکشن نیا نہیں ہے انہوں نے 2013 میں اپنی قسمت آزمائی مسلم لیگ ق سے کی تھی اس وقت چوہدری فرخ الطاف سابق ضلع ناظم بھی رہ چکے تھے مگر شکست نے آ گھیرا، ضمنی الیکشن میں امیدوار کے طور پر پاکستان تحریک انصاف کا سہارا لیا ہے مگر پارٹی کے اندر ون اختلافات کی وجہ سے انہیں بھی دیگر جماعتوں سے ہجرت کرنے والوں کا سہارا لینا پڑا ہے، گذشتہ روز قائد پی ٹی آئی عمران خان کا جلسہ بھی وہ شو نہ بنا سکا جو اس سے قبل بن چکے تھے، پی ٹی آئی کا ہر فرد اپنے آپ کو عمران کے بعد بڑا لیڈر سمجھتا ہے۔پارٹی میں ہر کوئی لیڈر ہے ورکرز کم پڑ گئے ہیں گذشتہ روز موٹر سائیکل ریلی کے موقعہ پر پارٹی کے اندر خانہ جنگ کھل کر سامنے آگئی بنٹی گروپ نے سکندر گروپ کے عدیل بٹ کی ٹھکائی کر دی جس کی وجہ سے پارٹی ورکرز تذبذب کا شکار ہو گئے ہیں کہ ایک پارٹی کیلئے دن رات ایک کرو اوپر سے سر بازار بے عزتی اگر انصاف ہمیں میسر نہیں تو کسی اور کو کیا دلوائیں گے، پی ٹی آئی کیلئے یہ بھی ایک سیاسی دھچکا ہے کہ جہاں چوہدری فرخ الطاف کے دست راست چوہدری عارف کوہ نور والے و صدر انجمن تاجران، راجہ محمد افضل خان سابق ایم این اے ، ملک شوکت حیات النگ ، چوہدری عابد جوتانہ سابق تحصیل ناظم و دیگر نے پاکستان مسلم لیگ ن کی حمایت کر کے ایک سوال چھوڑ دیا ہے۔۔؟ کہ کیا ورکرز ان سیاسیوں کی لونڈیاں ہیں یا بھیڑ چال کی نظر۔۔۔؟
الیکشن کے تمام امیدوار اپنے اپنے انداز میں ووٹرز کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ووٹ تو ووٹر نے ڈال کر ان امیدواروں کی امید بھر لانی ہے یا ان کی امیدوں پر پانی پھیرکر ان کی وعدہ خلافیوں کا جمہوری جواب دینا ہے فیصلہ 31 اگست کو ہو گاکہ جہلم کے ضمنی الیکشن کا سلطان کون ہو گا۔۔۔؟
The post چلتے چلتے،،،،، سیاسی ڈائری ،،،تحریر: محمداشتیاق پال appeared first on جہلم جیو.