Quantcast
Channel: JhelumGeo.com
Viewing all articles
Browse latest Browse all 5119

آخر کب تک،،،،،،،تحریر :عمر بٹ جناح جرنلسٹ رائٹر فورم جہلم

$
0
0

میرے پاس دنیا جہان کی دولت ہے اور اس دولت کے حصول میں برسرعام تسلیم کرتا ہوں کہ میری اصل دولت کہیں گم ہو گئی یا کئی رکھ کر بھول گیا ہوں ہاں مگر کبھی کبھی یاد آتے ہیں تو لمحہ بھر ذہن اور جسم پر سوار بھی ہو جاتی ہے،مگر دولت دنیا کا مزا ہی بہت ہے لہذا
کر لو مزے زندگی ہے چار دن
میں نے زمین خریدنے پر کئی ماہ لگا دیئے کہ رہائش کیلئے زمین بھلے جتنی مہنگی ہو مگر ماحول شاندار ہونا چاہے اور پھر رہائش بنوائی بھی جہاں بھر کے خوبصورت ولاز کے ماڈل دیکھے بہت نقشہ بنایا اس میں ہر طرح کی سہولیات سے مزین ایک گھر بنا لیا،اب گاڑی کے ماڈل دیکھے تو بڑی قیمت ادا کر کے مکمل لگژی گاڑی خریدی تو کچھ سکون ہوا مگر چند ماہ بعد دوسری یعنی نئے ماڈل کی گاڑی لے لی،میں نے ایک ہی گھر وہی ماحول دائیں بائیں رش بڑھتا گیا تو نئے گھر کیلئے کوئی نیا پرسکون ماحول تلاش کیا اسی طرح وہی پرایکٹس دوبارہ کی اور ہر اس نے گھر نئی جگہ پر منتقل ہو گئے ،
موبائل بھی گلیکسی ،گاڑی بھی لگژی و نیا ماڈل،رہائش بھی مثالی،مگر ضد وہی تیری دیوار سے اونچی میرے دیوار بنے،صبح سے شام اور پھر رات گئے دولت کمانے جمع کرنے پھر اور جمع کرنے کی سوچ ایک نہ ختم ہونے والا کوہ ہمالیہ سفر اور سفر ناتمام کی جو خوبی میں نے بہت قریب سے دیکھی ہے کیونکہ میں اس سفر کر مسافر ہوں وہ یہ ہے دولت کا بچاری اپنے حقیقی رشتوں سے دور اور مفاد کے رشتوں کے قریب تر ہوتا جاتا ہے،
میری مصروفیات اتنی بڑھ گئی کہ بچوں سے توجہ ہٹتی گئی بیوی کے ساتھ اگر فرصت مل جاتی محض چند منٹ کی تو چلتے چلتے بات سن لیتا اگر ممکن ہوتا تو جواب بھی دے دیتا رقم کی اسے کمی نہ تھی یہی حال بچوں کا تھا اور پھر وہی ہوا بے آرامی وقت پر کھانا نہ کھا سکنا،تمام سہولیات مجھے آرام اور سکون نہ دے سکیں،جس کی درحقیقت مجھے ضرورت تھی طعبیت بگڑی ڈاکٹر نے آرام کا مشورہ دیا مگر کاروبار ،جائیداد کی خریدو فروخت ،بیرونی دورے ان تمام نے آرام کرنے کیلئے فرصت بھی نہ تھی اور حال ہی یہ سوچ کر اگر میں ان امور کی نگرانی نہ کر سکا تو بڑا نقصان ہوگا،اور میرے بناء یہ معاملات کوئی چلا سکتا ہی نہیں،اسی دوران میں نے اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کرتا
دولت میرا ایمان ۔اختیار میرا نشہ،میرا قد کاٹھ میری شان ،میری امارت میرا غرور
جبکہ دیتا ہی گیا دیتا ہی گیا ،
میں نے دریاؤں میں چلنا سیکھا لیا
،میری اگلی منزل ستاروں پر
مگر نہیں ابھی نہیں اگلا مصرعہ میں تو ابھی بھلا بیٹھا ہوں،
جی ہاں!میں پھر بھی تیرے سہاروں پر،
میں تو خود محنت کررہاہوں اور اسی محنت بلکہ سچ پوچھیں تو لالچ طمعہ ہوس اور ہمیشہ یہی رہ جانے کی خواہش شدید نے بنا روکے اس سفر پر گامزن رکھا،اس بے نام اور بے نشان منزل کی طرف بھگائے رکھا اور پھر میں تھک گیا جبکہ تھکنا نہیں چاہتا تھا،میں لاچار ہو گیا بیماری کے ہاتھوں جبکہ میں بیمار نہیں ہونا چاہتا تھا میں گرنا نہیں چاہتا تھا مگر میں گر گیا میں بہت اچھے ہونے کے قریب ہسپتال کے نرم گرم بستر پر بے سود پڑ تھا اور ان لمحوں میں میری دولت کیا اولاد کی شکل میں اور کیا دیکھتا کہ مال و متاع کی صورت میں میرے کام کی نہیں لگ رہی تھی کیونکہ میں دن بدن کمزور اور نجیف ہوتا جارہا تھا مجبور اتنا کہ سب کچھ تھا مگر کھا نہ سکتا تھا فرانس اور برطانیہ کے شوز،جرمن کے لیڈر شوز مگر کچھ استعمال نہ کر سکتا تھا اس حد تک لاغر ہو گیا کہ بات کرتا تو کسی کو سمجھ بھی نہ آتی تھی میں بے بس ہو گیا تھا
آہ!الٹی ہو گئیں سب تدبیریں،
کچھ نہ دعا نے کام کیا،
آخر حسرت سے دل نے کام تمام کیا،
واہ حضرت انسان تجھے تمام دن کی مصروفیت اور راتوں کے تفریح میں کہیں سوچنے کی فرصت نہیں کہ تجھے یہاں رہنا نہیں ہے ،کیا تونے اب تک اپنے کسی پیارے کو ان سلے (کفن)کپڑے میں لپیٹ مٹی کی گود میں نہیں اتارا اس لمحہ میں تمہیں اپنی دنیا اندھیر نظر نہیں آنے لگی تھی تیرا منصب تیری دولت کیوں نہ اسے روک سکی مان لو اس حقیقت کو نہیں مانوگے تو تمہیں اس کا سامنا کرنا پڑیگا میری بات مان لو اس سچ کو تسلیم کر لو
حساب زندگانی کا جو بھی گوشوار ہ ہے
کار خیر نکال دو باقی سب خسارہ ہے،

The post آخر کب تک،،،،،،،تحریر :عمر بٹ جناح جرنلسٹ رائٹر فورم جہلم appeared first on جہلم جیو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 5119

Trending Articles