کراچی بد امنی کیس کی سماعت کے دوران آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کواعلیٰ عدلیہ کے حکم پر اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے ،اسی روز عمر رسیدہ وزیراعلیٰ سندھ سائیں قائم علی شاہ نے سکھر یاترا کے موقع پر فرمایا۔سابق آئی جی ۔بہترکام ۔کر رہے تھے سپریم کورٹ میں ان کے خلاف کرپشن ،خلاف ضابطہ تقرریاں اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزیوں سمیت متعدد مقدمات زیر سماعت ہونے پر جماعت اور حکومت نے انہیں ہٹانے کا فیصلہ کیا۔سائیں جی کا یہ بیان یوں ہے جیسے یہ فیصلہ انہوں نے خود کیا ہو ،انہیں یہ ندامت تو نہیں کہ ان کا چہیتا پولیس آفیسر کیا گل کھلا رہا تھا الٹا فرما رہے ہیں وہ بہتر کام کر رہے تھے،ہاں واقعی وہ بہتر کام کر رہے تھے کیونکہ ایسے کرداروں کے نزدیک کوئی گندہ ،مکروہ اور لوٹ مار جیسا کام کرنے والا ہی ۔بہترین ۔ہے ،سوچ ہی لٹیروں جیسی ہو تو تمام غلط کام بھی قابل ایوارڈ لگتے ہیں،امید ہے سائیں جی کی جماعت اعلیٰ کارکردگی کے حامل اس پولیس آفیسر کو ضرور کسی ایوارڈ سے نوازے گی، گذشتہ سال ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی سندھ ہائی کورٹ پیشی کے موقع پرسول لباس میں ملبوس نقاب پوش پولیس اہلکاروں نے جہاں ذوالفقار مرزا کے ذاتی گارڈز کی دھلائی کی وہیں انہوں نے صحافتی فرائض انجام دینے والے صحافی بھائیوں کو بھی بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا،صحافیوں پریہ بہیمانہ تشدد ساری دنیا نے نیوز چینلز پر براہ راست دیکھا مگر حکومت کو ذرہ توفیق نہ ہوئی کہ اس کمینگی کی روک تھام کرنے کے لئے سامنے آئے ،ساری دنیا کی طرح سندھ ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان بھی احاطہ ہائی کورٹ میں ہونے والی اس پولیس گردی پر ششدر رہ گئے انہوں نے سندھ پولیس کے انوکھے سربراہ سے فون پر بات کرنے کی کوشش کی مگر موصوف کا نمبر بند تھا ،چیف جسٹس آف سندھ ہائی کورٹ نے اس شرمناک واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی غلام حیدر جمالی کو توہین عدالت کا نوٹسدیتے ہوئے طلب کر لیاس،ان کی معافی عدالت نے مسترد کر دی ،جمالی اپنی حرکات سے باز نہ آئے اور اختیارات کے زعم میں عدالت کے ساتھ مزید ۔پنگا۔لیتے گئے،3ماہ قبل ہائی کورٹ نے ان پر توہین عدالت کیس میں ۔فرد جرم۔عائد کردی ،جس وقت وفاقی حکومت نے غلام حیدر جمالی کی بطور آئی سندھ تعیناتی کی منظوری دی تب موصوف قائم مقام آئی جی سندھ، ایڈیشنل آئی جی انویسٹی گیشن اور DIGمیر پور خاص ڈویژن کے عہدوں پر براجمان تھے،وفاق ان کی تعیناتی نہیں چاہتا تھا ،مرکز کی جانب سے آئی جی سندھ کے لئے محمد زبیر،خان بیگ اور محمد رفیق بٹ کے نام صوبے کو بھیجے گئے مگر سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن(جو اس وقت کرپشن الزامات کے تحت بیرون ملک بھاگ چکے ہیں) نے صوبائی حکومت کی جانب سے ان ناموں کو مسترد کر دیا،غلام حیدر جمالی کے بطور آئی جی آرڈرز نہ ہونے پر سندھ نے فیاض لغاری کا نام اس عہدے کے لئے وفاق کو بھیجا اسے بھی وفاق نے مسترد کر دیا،بالآخر 10ستمبر2014کو نواز حکومت سندھ میں تعینات گریڈ21کے قائم مقام آئی جی غلام حیدر جمالی کو ریگولر کرنے کے نوٹیفکیشن جاری کرنے پر مجبور ہو گئی جنہیں کنفرم کرنے کے لئے پیپلز پارٹی مسلسل وفاقی حکومت سے درخواست کرتی رہی تھی ، شہر اقتدار میں جاری دھرنے کے باعث حکومت اس حوالے سے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی اور اس نے پیپلز پارٹی کا یہ دیرینہ مطالبہ پورا کر دیا،مضبوط سیاسی پشت پناہی کے حامل اس پولیس آفیسر نے جہاں ایک طرف کرپشن میں جھنڈے گاڑے وہیں عدلیہ کو گھورنے سے بھی باز نہ آئے،غلام ھیدر جمالی نے اپنی تعیناتی کے دوران12ہزار بھرتیوں میں 5ہزار سے زائدبھرتیاں قواعد و ضوابط سے ہٹ کر غیر قانونی طور پر کیں،انہوں نے بکتر بند گاڑیوں کی خریداری میں مبینہ رشوت وصول کی،غلام حیدر جمالی نے تفتیشی فنڈز میں 21کروڑ روپے کی غیر قانونی بندر بانٹ کی ،انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تفتیش کے لئے رقم نقد نکلوانے کا شاہی حکم صادر فرمایا، حالانکہ یہ رقم ہمیشہ کراس چیک کے ذریعے نکالی جاتی ہے،جسٹس امیر ہانی مسلم ،جسٹس شیخ عظمت سعید اورجسٹس خلجی عارف پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بد امنی کیس کی سماعت کی۔دوران سماعت آئی جی کی جانب سے فراہم کردہ تمام رپورٹس پر عدلیہ نے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انہیں رد کر دیا گیا،غلام حیدر جمالی نے جسٹس امیر ہانی مسلم پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ان کے اس مؤقف پر بھی اتفاق نہ کیا گیا،دہشت گردوں کی رہائی کے حوالے سے علم ہونے پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دئیے کہ ۔ خود کو آئی جی کہنے والے کو پتہ ہی نہیں کہ اس کی ماتحتی میں کیا ہو رہا ہے یہاں تک کہ دہشت گردوں کی رہائی بھی عمل میں آگئی اور موصوف غافل رہے؟اس بات کا IGSکے پاس کوئی جواب نہیں تھا، عدالت اعظمیٰ نے صوبائی حکومت کو ہدایت کی کہ ان کے خلاف کاروائی کی جائے ،عدالت نے تمام کرپشن مقدمات کی تفتیش ۔نیب۔کے حوالے کر دی،سائیں جی حکومت ان تمام تر مشکلات کے باوجود غلام حیدرجمالی کو ان کے عہدے سے ہٹانے میں قطعاً رضامند نہ تھی،عدالتی حکم کے بر عکس سائیں جی نے صوبائی انسداد کرپشن ادارے کو اس معاملے کی فوری تحقیقات کا حکم دے دیا جبکہ سپریم کورٹ نے چیف سیکرٹری کو دو ٹوک الفاظ میں حکم دیا تھا کہ ان کیسوں کے حوالے سے تمام ریکارڈ کی حفاظت کو یقینی بنائے اور صرف NAB کو ہی اس تک رسائی دے،وزیر اعلیٰ سندھ کے اس حکم نے سندھ حکومت کی نیت پر سوالیہ لگا دیا ہے،سائیں جی کی نگری میں کرپشن کی گنگا بہہ رہی ہے اس کے باوجود اصلاح نہیں کر رہے بلکہ کہہ رہے ہیں۔وفاق کو پورے ملک میں بے امنی صرف کراچی اور سندھ میں ہی نظر آتی ہے اور سندھ کے سیاستدانوں پر اتنا غصہ کیوں ،ہمیں بتائیں ہمارا گناہ کیا ہے؟نثار مورائی ااور ڈاکٹر عاصم کے خلاف ثبوت ہیں تو سامنے لے آئیں،البتہ اس موقع پر سائیں جی نے یہ ضرور مانا کہ ۔سندھ میں بے پناہ بے روزگاری ہے۔سائیں جی جس منصب پر فائز ہیں وہ عوام کی امانت ہے،جی حضوری اس حد تک بھی نہیں ہونی چاہئے ،خدا کے حضور بھی جواب دینا ہے، حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے سندھ مدرسۃالسلام یونیورسٹی کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سائیں جی جیسے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے ہی کہا تھا۔جمہوریت کے نام پر چند لوگ پوری قوم کا استحصال کر رہے ہیں،سچ ،جھوٹ،حرام اور حلال کی تفریق ختم ہو چکی ہے،یہ95فیصدلوگوں کی آمدنی پر قابض ہیں،98فیصد لوگ زبوں حالی کا شکار ہیں ملک صوبائیت،لسانیت،مذہبی اورفقہی بنیادوں پر تقسیم ہے اورہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں خوف خدا کا فقدان ہے۔جہاں صوبے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے سب بڑے افسر کرپشن میں غرق ہو اور صوبے کے چیف ایگزیکٹو۔سائیں جی۔ان کے کاموں کی تعریف کریں وہاں شرم کرنے کی بھی کوئی حد ہو گی کیا؟؟
The post سابق آئی جی اور سائیں جی ( پہلو ،،،،،،،،،، صابر مغل ) appeared first on جہلم جیو.