Quantcast
Channel: JhelumGeo.com
Viewing all articles
Browse latest Browse all 5119

مہربان حکمران اور عوام (پہلو ۔۔۔۔۔ صابر مغل )

$
0
0
سول وزیر اعظم سکندر مرزا کی حکومت تھی بد ترعوامی حالات اور ملکی صورتحال کی بنا پر اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل ایوب خان نے27۔اکتوبر1958کو ان کی حکومت کو چلتا کرتے ہوئے اقتدار کی عنان سنبھال لی،عوام نے غیر مستحکم جمہوریت اور بے وفا سیاستدانوں سے بیزار ہونے پر انہیں خوش آمدید کہا تاکہ ان کے ارمان،ان کی خواہشات پوری ہو سکیں مگر ندارد،جنرل ایوب خان کو اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے سب سے زیادہ خطرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح سے تھا ،ایسے حالات میں ان کی نگاہ ۔سر۔کا خطاب رکھنے والے سر شاہنواز بھٹو کے تعلیم یافتہ صاحبزادے ذوالفقار علی بھٹو پر پڑی، جھٹ انہیں وفاقی وزارت دے ڈالی،ذوالفقار علی بھٹو کے والد شاہنواز بھٹو مشیر اعلیٰ حکومت بمبئی اور جونا گڑھ کی مسلم ریاست میں دیوان رہے،ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو تجارت،اقلیتی امور،اطلاعات،صنعت،قدرتی وسائل ، امور کشمیراور خارجہ جیسی اہم وزارتوں پر فائز رکھا،ذوالفقار علی بھٹو نے ۔برکلے یونیورسٹی ۔کیلیفورنیا سے گریجوویشن کی،آکسفورڈیونیورسٹی سے قانون اور ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی انہوں نے لندن میں ہی بیرسٹری کی تعلیم مکمل ،ذوالفقار علی بھٹو نے صدر ایوب خان کی عوام میں دن بدن گرتی ساکھ کو بھانپت کرعوام کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے ۔دسمبر1967میں نئی سیاسی پارٹی۔پاکستان پیپلز پارٹی۔کے نام سے قائم کی جس کا بنیادی نعرہ ۔روٹی ،کپڑا اور مکان ۔تھا،بھٹو نے بہت جلد عوام کو اپنے سحرمیں بری طرح جکڑ لیا،عوام کو دن رات اپنے اور اپنے بچوں کے لئے نیا مکان ،کپڑا اور مکان جیسے خواب دن کو بھی نظر آنے لگے،صدر ایوب خان گئے تو اختیارات جنر ل یحییٰ خان کو سونپ گئے جن کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا،ذالفقار بھٹو پاکستان کے 9ویں وزیر اعظم اور چوتھے صدر بنے مگر عوام کے سہانے خواب ان کے دور میں بھی چکنا چور ہو گئے،5 جولائی1977کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق نے مارشل نافذ کر دیا،انہوں نے بھٹو کو پابند سلاسل کیا اور عدالتی کاروائی کے بعد 4اپریل1979 کو اڈیالہ جیل میں انہیں تختہ دار پر لٹکوا دیا،یوں پاکستان کی تقدیر کے مالک 1924کو جالندھر میں ایک غریب کسان کے ہاں پیدا ہونے والے ضیا ء الحق بن گئے جنہوں نے1945میں فوج میں کمیشن حاصل کیااور1975میں بھٹو مرحوم کی نظروں کو بھانے والے چیف آف آ رمی سٹاف بنے تھے،ان کے دور میں اسلامی تعلیمات کا ۔ورد ۔بہت جاری ہوا ،اسلامی قوانین کے نفاذ کا بیانگ دہل اعلان کر کے عمل درآمد کی ناکام کوشش بھی کی گئی،انہوں نے 1985میں غیر جماعتی انتخابات کرائے اورسندھ سے تعلق رکھنے والے محمد خان جونیجو کو وزارت اعظمیٰ پیش کردی،جنرل ضیاء کے دوراقتدار میں جماعت اسلامی خوب ان کے ساتھ تھی مگر عوام کے ساتھ وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا رہا تھا،جنرل ضیاء کی سر پرستی میں اتفاق انڈسٹری کے مالک میاں شریف کے صاحبزادے میاں نواز شریف کی سیاسی تربیت کی گئی،آمریت کے زیر سایہ غیر جماعتی انتخابات میں میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے،جنرل ضیاء نے وزیر اعظم جونیجو کو چلتا کیا تو جنرل ضیاء کے چہیتے نواز شریف پھر بھی بطور نگران وزیر اعلیٰ کام کرتے رہے،گورنر پنجاب جنرل جیلانی نے میاں نواز شریف کی کامیابی کے لئے خفیہ فنڈز کا بے دریغ استعمال کیا،1988کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لئے تشکیل کردہ اسلامی جمہوری اتحادمیں جنرل جیلانی کا کلیدی کردار ہے، وفاق میں تو پی پی پی کو نہ روکا جا سکا ، محترمہ بے نطیر بھٹوجنہوں نے لاروڈ یونیورسٹی کے کالج میں گریجویشن کی اور پھر آکسفورڈ یونیورسٹی میں فلسفہ،معاشیات اور سیاسیات میں ایم ۔اے کیا، کو پاکستان کی پہلی خاتون وز یرا عظم بننے کاا عزاز حاصل ہوا، البتہ پنجاب میں میاں نواز شریف کو وزیر اعلیٰٰ بننے کا موقع مل گیا،بیس ماہ تک وزارت اعظمیٰ کے عہدے پر فائز رہیں پھر اسحاق خان جو ا س وقت صدر مملکت تھے نے ان کی حکومت کو بر طرف کر دیا، ان کے دور میں بھی عوام کی بدیسی حالت جوں کی توں رہی،پھرانتخابات کا ڈھونگ رچایا گیا جس کے نتیجہ میں 6نومبر 1990کو نواز شریف نے وزیر اعظم پاکستان کا حلف اٹھایا،اس وقت کے صدر اسحاق خان کے ساتھ مخاصمت کی بنا پر جولائی 1993انہیں گھر جانا پڑا،اقتدارکی اس ۔گیم۔کو بر قرار رکھنے کے لئے 1993میں بے نظیر بھٹو پھر ایوان اقتدار جا پہنچیں،اس بار انہیں کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت سردار فاروق احمد لغاری نے ان پر بدعنوانی،کرپشن اور ماورائے عدالت قتل کے اقدامات کے الزامات لگا کر ان کی حکومت کو بر طرف کر دیا،1997سے1999تک اقتدار کے سنگھاس پر میاں نواز شریف بے نظیر بھٹو کی طرح دوسری مرتبہ ایوان وزیر اعظم میں جلوہ افرو ز رہے،محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے پاکستان میں اقتدار کی بلندیوں میں 1990کی دہائی پوری کر لی مگر پاکستانی قوم کے حالات نہ بدلے،میاں نوز شریف کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف بھی اب چوتھی مرتبہ پنجاب کے حکمران بنے ہوئے ہیں،پرویز مشرف طویل عرسہ تک بر سر اقتدار رہے ان کے دور میں چوہدری خاندان جس کی پاکستانی سیاست میں بے حد اہمیت ہے کے چشم و چراغ چوہدری پرویز الہٰی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے جبکہ چوہدری شجاعت حسین تین ماہ کے لئے وزیر اعظم بھی بنے،چوہدری پرویز الہی کو توپاکستان کے پہلے نائب وزیر اعظم بننے کا بھی اعزاز حاصل ہے یہ اعزاز انہیں آصف علی زرداری کے دور میں نصیب ہوا تھاجو پاکستان کی تاریخ میں آج بھی ایک سوالیہ نشان ہے، پرویز مشرف نے شوکت عزیز کو امپورٹ کیا اور وزارت اعظمیٰ کا تاج ان کے سر پر رکھ دیا ،شوکت عزیزنے پاکستان کو دلدل میں دھکیلنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی،پرویز مشرف کے ہاتھوں خاندان سمیت جلا وطن ہونے والے میاں نواز شریف نے متحدہ عرب امارات کے شہر دوبئی میں خود جلا وطنی اختیار کرنے والی ۔بظاہر بد ترین سیاسی حریف۔کے درمیان2006میں میثاق جمہوریت طے کر لیا باقاعدہ دستخط ہو گئے،یوں متضاد نظریات۔ اقتدار۔ کے لئے ایک ہو گئے،بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ میں شہید کر دیا گیا،آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کی عنان سنبھالی اور انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی برسراقتدار آگئی،آصف علی زرداری خود ایوان صدر جا پہنچے اور دور ضیاء میں سیاست میں انٹری ڈالنے والے یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنا دیا ،تاہم اختیارات کا مرکز ایوان صدر ہی رہا،پیپلز پارٹی کے آخری دور میں عدلیہ کے ایک فیصلے پر راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم بنے ،جبکہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرا لقادری نے شاہراہ دستور پر ڈیرے ڈال دئے جس کا مجموعی فائدہ مسلم لیگ (ن) کو ہی پہنچا،کرپٹ لوگوں کو لگام ڈالنے کا دعویٰ،انرجی بحران ختم کرنے کی خوشخبری،عوام کی تقدیر بدلنے کی نوید،دعوے ہی دعوے،بڑھکیں ہی بڑھکیں،اس دوران الیکشن2013میں دوسری بڑی جماعت کے طور پر ابھرنے والی سیاسی جماعت ۔پاکستان تحریک انصاف ۔جس کی بنیا د سابق قومی کرکٹر عمران خان نے25اپریل1996کو رکھی تھی نے ڈاکٹرطاہرلقادری کے متوازی پروگرام ۔لانگ مارچ اور دھرنا ۔تشکیل دے دیا ،بنیادی طور پر ان دو احتجاجی قوتوں کے درمیان نظریات کا واضح فرق تھا یہی وجہ بنی کہ بالآخر انہیں الگ اور ناکام ہونا پڑا،حکومت وقت کو ایک موقع پر کسی شب خون کا خطرہ پیدا ہوا تو اس نے تمام سیاسی مخالفین کے پاؤں پکڑ لئے،دوسری جانب عوام کی جانب دھیان کس کا جاتا؟ ریلیف دینے سے بچنے کا اس سے بڑا اور کوئی بہانہ ہو ہی نہیں سکتا تھا،اس دوران ہر وہ کام ہوتا رہا جو حکومتی ترجیحات میں تھا چونکہ عوامی حالت کو صرف جمع تفریق کی حد تک بدلنے کے دعوؤں سے آگے کچھ نہ تھا لہٰذاان کے لئے کچھ نہ ہو سکا،صرف ایک بات عوام کے خوش آئند بات ہے کہ پاک آرمی کے دباؤپر قومی دولت کو لوٹنے والوں اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے پیچھے پیچھے ہے جس پر ہمارے ۔سیاسی گرو۔بہت پریشان ہیں،کوئی عدلیہ پر چیخ رہا ہے کوئی نیب پر چنگاڑ رہا ہے،کوئی سندھ کی ،کوئی پنجاب کی بات کر رہا ہے،خدا عظیم کے نام پر ۔حلف ۔اٹھا کر اپنے عہدے پر براجمان ہونے نہ جانے کیوں لٹیروں کے ہمنوا بن جاتے ہیں،ایک دوسرے کی لوٹ مار پر بیان بھی دیتے ہیں مگر سب سے بڑے ہمدرد بھی ایک دوسرے کے یہی ہیں،13دسمبر1928کو پیدا ہونے اور تیسری مرتبہ صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سائیں قائم علی شاہ جن کے صوبہ میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں اس عمر رسیدہ وزیر اعلیٰ کو بھی کرپٹ افراد کی بہت فکر ہے جن میں زیادہ اکثریت کرپشن،لوٹ مار،چائنا کٹنگ سمیت دیگر جرائم میں ملوث افراد کی ہے ،چائنا کٹنگ کی بازگشت تو اب ایوان وزیر اعظم کی ناک تلے بھی سنائی دینے لگی ہے، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں من پسند قراردادیں پیش کی جا رہی ہیں،الطاف حسین نے 18مارچ 1984کو کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کی بنیادرکھی اور1991پاکستان کو چھوڑ کر لندن جا پہنچے اور برطانوی شہر بن گئے ، تب سے وہ لندن میں بیٹھ کر پاکستانی سیاست میں بھونچال برپا کرتے رہے ہیں،کئی دہائیوں سے ان پر دشمن ملک کی خٖفیہ ایجنسی RAW کے ساتھ روابط کے الزامات لگ رہے ہیں مگر حیرت کی بات یہ کہ عوامی فلاح کے نام پر اقتدار میں آنے والوں نے ہمیشہ اپنے اقتدار کے لئے ۔نائن زیرہ۔اپنا ماتھا ضرور ٹیکا،دشمن سے روابط کے الزامات اور ان کے در پر حاضری بھی ،قول وفعل پر عجب تضاد شاید کہیں اور نہ ملے،اب الطاف حسین کے چہیتے ،مصطفےٰ کمال کراچی وارد ہوئے ہیں تو پاکستان کے تمام نیوز چینلز دیکھنے سے لگتا ہے صرف یہی ایک مسئلہ تھا جو حل ہونے کے قریب ہے،یہ فطری عمل ہے کہ انسان پر ایسا وقت ضرور آتا ہے جب اسے اپنے کرتوتوں پر پشیمانی ہوتی ہے مگر یہ نہیں ہوتا کہ دنیا جہاں کی خرافات میں شامل رہا جائے،دشمن ملک بھارت کی خفیہ ایجنسی سے روابط کے دوران بھی ساتھ ہوں ،کیا یہ ممکن ہے کہ کسی قتل کرنے والے کو اس کے معافی مانگنے پر معاف کر دیا گیا ہو؟کسی ڈکیت کو پکڑے جانے پر اقرار جرم کے باوجود چھوڑ دیا جائے ؟پاکستان میں یہی ہو رہا ہے گر عام آدمی کے لئے نہیں ایک مخصوص طبقہ کے لئے،کیا ذاتی کدورت کے علاوہ آج تک اشرافیہ کی کسی اہم شخصیت کو سزا ملی؟اگر ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی سے ہی آغاز کر دیا جائے تو اس سے قبل کتنے پاکستانی سیاست دان تھے جن کے اربوں روپے کے اثاثے بیرون ممالک تھے؟کتنے ایسے افراد تھے جن کے بیرون ملک بزنس تھے؟اب تو ایک فرد کابیرونی بزنس ایک نہیں کئی ممالک تک پھیلا ہواہے۔ان تمام حکمرانوں میں سے کسی ایک کا نام بتا دیا جائے جس نے عوامی حالت بدلنے کا دعویٰ نہ کیا ہو؟مگر ہر ایک نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس ملک کا ،یہاں کی عوام کا بیڑہ ہی غرق کیا ہے ،کیا یہ سب غلط ہے ؟عوام کی سوچ کو گھن چکر میں ڈالنے کے لئے ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی کسی صورت بری الذمہ نہیں ،ایشیا کپ میں بھارت کیساتھ میچ سے دو دن قبل سے ہمارے نیوز چینلز قومی کھلاڑیوں کی مدح سرائی میں ایک دوسرے کو بچھاڑنے اور عوام کو سحر انگیزی میں مبتلا کرنے میں تمام قوت صرف کر رہے تھے اور جیسے ہی ٹیم ہاری چینلز پر براجمان وہی قصیدہ گو ٹیم پر چڑھ دوڑے،ہماری تمام حکومتیں تو چاہتی ہی یہی ہیں کہ اگرکسی ایسی ڈاکومنٹری پر آسکر ایوراڈ ملے چاہے اس میں پاکستانی معاشرے کی جتنی بھی تضحیک ہو اسے اتنی کوریج ملے کہ عوام کا دھیان کسی کے جنازے پر بھی نہ جانے دیا جائے گا،عوامی سوچ کی پامالی اور ان کے حقوق کا استحصال کرنے والے یکجا ہیں،ان کی پسندیدہ Gameہی انسانی حقوق کی پامالی ہے ،یہ عوام دوست نہیں بلکہ اقتدار دوست ہیں اسی لئے یہ قدر بھی انہی

 

The post مہربان حکمران اور عوام (پہلو ۔۔۔۔۔ صابر مغل ) appeared first on جہلم جیو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 5119

Trending Articles