بھارت اور پاکستان دو ایسے ملک ہیں جنہوں نے ایک غلامی کے بطن سے ایک ساتھ جنم لیا تھا ۔ غلامی سے نجا ت حاصل کر نے کی ایک جدوجہد میں برصغیر کے مسلمانوں کو جنگِ آزادی کے ساتھ فہم و فراست کی جنگ بھی لڑنی پڑی ۔ اس طرح کے مسلمانوں کو علم تھا کہ اگر صرف انگریزوں کے چلے جانے پر اتفاق کیا تو اِن کے چلے جانے کے بعد ہندو کا تسلط قائم ہو گا جس سے کبھی نجات نہ ملے گی ۔ یوں مسلمانوں کو ایک جنگ تو انگریزوں کو نکالنے کے لیے لڑنا پڑی اور دوسری جنگ ایک الگ وطن کے قیام کے لیے انہوں نے لڑی ۔ انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کر کے پاک و بھارت دو مُلک تو وجود میں آ گئے لیکن ایسا ہونا ہندو ؤں کوگنوارا نہ کیا ۔ ہندو نے انگریز سے آزادی حاصل کرنے کو جتنی اہمیت دی اِس سے زیادہ توجہ اِس بات پر دی کہ پاکستان کیوں بنا؟ نہیں بننا چائیے تھا! اگر بن گیا تو اِسے قائم نہیں رہنے دینا۔ اِسے ختم کرنے کی کوشش کرتے رہنا اور ختم کر کے ہی چھوڑنا ہے یہ وہ حقیقت ہے جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ اس حقیقت کی وجہ سے قیامِ پاکستان کے بعد اب تک کیا کچھ ہواپاکستان کو ختم کرنے کے لیے ہر پاکستانی کے سامنے ہے ۔ گزشتہ 60,65 برسوں میں جو کچھ ہو ا اِ سے دیکھ کے کہا جا سکتا ہے کہ آزادی کے وقت دونوں ممالک جو فیصلے کیے تھے اِن میں اِن فیصلوں پر عمل ہو رہا ہے جو ہندوستانی قیادت نے کیے تھے لیکن ان فیصلوں پر عمل نہیں ہو رہا جو مسلم قیادت نے کیے تھے صرف اِس لیے کہ ایک طرف کی سوچ کا تسلسل جاری اور دوسری طرف کی سوچ کا تسلسل جاری نہ رہ سکا۔ پاکستان کو ختم کرنے کے لیے گزشتے سات دہائیوں میں جو کچھ بھارت کو کرنا پڑا اِس میں سے اِسے جو سب سے بڑی عالمی کامیابی ملی وہ یہ ہے کہ آج پاکستانیوں کو ایک دہشتگرد ملک کے طور پر جانا جاتا ہے ۔دنیا بھر میں بطور دہشتگرد پاکستان کو مشہور کر دیا جائے اِس لیے کہ بھارت کو وہ تمام دہشتگردی پاکستان میں پیدا کرنی پٖڑی جو پاکستان کو دہشگرد ملک ثابت کرنے کے لیے ضروری تھی ۔ پاکستان کو ایک دہشگرد ملک قرار دینے کے لیے جس عالمی میڈیائی تعاون کو بھارت کو ضرورت تھی اِ س کی یہ ضرورت یہودیوں نے پوری کی ۔ یہ سب کچھ ہو ا تو نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ یہودیوں کے تعاون سے بھارت نے پاکستان میں دہشتگردی کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم کر دیا جسے افغانستان میں میں بیٹھ کر کنڑول کر رہا ہے اور اب جب کہ ایک نریندر مودی اور دوسری طرف عبداللہ عبداللہ کی حکومت ہے اس کا ہر باشعور پاکستانی کو اندازہ ہے اگر سوچے کہ نریندر مودی اور عبداللہ عبداللہ کے دورہِ اقتدار میں پاکستان کو ختم کرنے کے لیے کی جانے والی سازشوں میں کوئی کمی ہو گی تو ایسے سوچنے والا غلطی پر ہو گا۔اگر یہ درست ہے کہہ ہندوستان اپنی قومی پالیسی نہیں بدلے گا تو پھر یہ بھی درست ہے کہ پاکستان کو بھی بھارت کے سلسلے میں ایک نئی قومی پالیسی ترتیب دینا پڑے گی جس کے لیے قومی اتفاقِ رائے کا وجود میں آنا بھی مشکل نہ ہو گا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں کوئی ایسی قومی پالیسی بن پائے گی جو کسی عارضہ مفاد کے طابع نہ ہو جس کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کی بقا کو ہر قیمت پر یقینی بنانا ہو؟ تو جواب یہ ہے کہ “جی” وہ پالیسی بن سکتی ہے اور ضرور بن سکتی ہے لیکن تب بن سکتی ہے جب ہندوستان کے معاملے میں ایک قوم پرست سیاسی اجتماعی سوچ پاکستان میں وجود میں آجائے ۔ ایک ایسی قومی سوچ وجود میں آجائے جس میں کسی ذاتی مفاد یا کسی خوف کا کوئی رنگ موجود نہ ہو ۔ اِس خیال یا موقف سے بچنے کے لیے اپنی جان بچانے کے لیے کچھ لوگ اکثر اِس جملے کا سہارا لیتے ہیں کہ پڑوسیوں کے ساتھ خوشگوار تعلق چاہتے ہیں ۔ خطے میں امن قائم کرنے کے لیے ایسا ضروری ہے ۔ ایسا سوچنے والوں کی خدمت میں صرف اتنا عرض ہے کہ پڑوسیوں کے سلسلے میں تو ایسا سوچنا ٹھیک ہے لیکن وہ جس نے آپ کا وجود ہی ختم کرنے کا تہیہ کر رکھا ہو وہ امن و آتشی کی زبان سمجھے گا کیسے ؟ نہیں سمجھے گا کبھی نہیں سمجھے گا تو کہا جاسکتا ہے کہ جو وقت کا تقاضا ہے وہ پورا کرنا پڑے گا ۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اب بھارت کے دستِ نگر بننے کے بجائے دنیا کو بتایا جائے کہ روس کے خلاف جو کا م افغانستان میں امریکہ نے شروع کیا تھا اِسے بطور خاص پاکستان میں دہشت گردی کا رنگ بھارت نے دیا ہے۔ حصہ سب ہی کا ہے لیکن مرکزی کردار بھارت کا ہے ۔ kpk، سندھ اور بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت براہِ راست ملوث ہے جس کا پاکستان کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو پھر قوم جاننا چاہتی ہے کہ عالمی سطح پر وہ ثبوت سامنے کیوں نہیں لائے جائے ۔ شاید کچھ اورپردہ نشینوں کے نام بھی سامنے آتے ہیں ۔ جنگی ناراضگی ہم افورڈ نہیں کر سکتے ۔ اِ س لیے کوئی ثبوت سامنے نہیں آرہا ۔ اِن حالات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ ہو سکتاہے حکومتی سطح پر یہ کام نہ ہو سکے تو اِس صورت میں یہ کام خود قوم کرناپڑے گا۔ وقت کا تقاضا قوم یوں پورا کر سکتی ہے کہ قوم حکومت کی کسی خارجہ پالیسی یا سفارتی کوشش کا انتظار نہ کرے قوم کے وہ پڑھے لکھے نوجوان جو انٹرنیٹ کے استعمال سے آگاہ ہیں وہ اپنے وطن کے لیے دنیا بھر سے رابطہ قائم کر کے دنیا کو یہ باور کرائیں کہ بھارت جو مسلمانوں میں چند کو خرید کر انہیں ظالموں کا روپ دے کر ان کا وہ روپ اسلام اور پاکستان کو روپ ثابت کرنا چاہتاہے وہ مسلمانوں کو انتہا پسند و بنیا د پرست ثابت کرنا چاہتا ہے اِس کی وجہ ہندو کی مرضی کے خلاف قیام پاکستان کی عمل ہے۔
نوجوان انٹرنیٹ پر دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ہیں بلکہ ہندو قوم انتہا پسند قوم ہے ثبوت یہ ہے کہ انتہا پسند ہونا دور کی بات ہے ۔ پاکستانیوں نے آج تک کسی اپنی مذہبی جماعت کو کبھی حکومت نہیں بنایا نہ ہی پاکستان میں کوئی الیکشن ایسا ہوا ہے جس میں کسی بھی قسم کا ایشو بھارت کو بتایا گیا ہو اِس کے برعکس جو کچھ ہندوستان کے موجودہ الیکشن میں ہوا وہ سب کچھ مغربی دنیا کو انٹرنیٹ پر ہی بتایا جائے تو پاکستان کے بارے میں دنیا کی سوچ بن چکی ہے وہ بدلی جا سکتی ہے اور یہ کام سیاست و حکومت سے ممکن ہے نہ ہو سکے ۔ اس لیے یہ کام قوم کے پڑھے لکھے نوجوان کو خود کرنا پڑے گا۔ بصورت دیگر اِس کے سوا کیاکہا جا سکے گا کہ۔۔۔
آئینہ تو ہے ، دکھائے کون؟؟؟
نوجوان انٹرنیٹ پر دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ہیں بلکہ ہندو قوم انتہا پسند قوم ہے ثبوت یہ ہے کہ انتہا پسند ہونا دور کی بات ہے ۔ پاکستانیوں نے آج تک کسی اپنی مذہبی جماعت کو کبھی حکومت نہیں بنایا نہ ہی پاکستان میں کوئی الیکشن ایسا ہوا ہے جس میں کسی بھی قسم کا ایشو بھارت کو بتایا گیا ہو اِس کے برعکس جو کچھ ہندوستان کے موجودہ الیکشن میں ہوا وہ سب کچھ مغربی دنیا کو انٹرنیٹ پر ہی بتایا جائے تو پاکستان کے بارے میں دنیا کی سوچ بن چکی ہے وہ بدلی جا سکتی ہے اور یہ کام سیاست و حکومت سے ممکن ہے نہ ہو سکے ۔ اس لیے یہ کام قوم کے پڑھے لکھے نوجوان کو خود کرنا پڑے گا۔ بصورت دیگر اِس کے سوا کیاکہا جا سکے گا کہ۔۔۔
آئینہ تو ہے ، دکھائے کون؟؟؟
The post (ہراول دستہ ، پاکستانی پڑھے لکھے نوجوان!)،،، شیخ گوہر وقاص پراچہ، دھریالہ جالپ appeared first on جہلم جیو.